سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
54. بَابُ : كَيْفَ التَّلْبِيَةُ
باب: تلبیہ کس طرح پکارا جائے؟
حدیث نمبر: 2748
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: إِنَّ سَالِمًا أَخْبَرَنِي , أَنَّ أَبَاهُ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ يَقُولُ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ" , وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ النَّاقَةُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ، أَهَلَّ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پکارتے سنا، آپ کہہ رہے تھے: «لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» حاضر ہوں تیری خدمت میں اے رب! حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک و ساجھی دار نہیں، حاضر ہوں میں، تمام تعریفیں تجھی کو سزاوار ہیں اور تمام نعمتیں تیری ہی عطا کردہ ہیں، تیری ہی سلطنت ہے، تیرا کوئی ساجھی و شریک نہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر جب اونٹنی آپ کو مسجد ذوالحلیفہ کے پاس لے کر پوری طرح کھڑی ہوئی تو آپ نے ان کلمات کو بلند آواز سے کہا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2684 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 319  
´مدینے والوں کو مقام ذوالحلیفہ سے تلبیہ کہنا چاہئے`
«. . . عن سالم بن عبد الله انه سمع اباه يقول: بيداؤكم هذه التى تكذبون على رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، ما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد، يعني مسجد ذي الحليفة. . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے (اے لوگو!) یہ تمہارا بیداء (ایک خاص میدانی مقام) جسے تم غلطی سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے ہو (حالانکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس سے ہی لبیک کہی تھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 319]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 1541، ومسلم 1186، من حديث مالك به]
تفقه:
① جو شخص حدیث کی مخالفت کرے تو مصلحت کے ساتھ اس کا سختی سے رد کرنا جائز ہے۔
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں ہر قول و فعل مردود ہے۔
③ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ذوالحلیفہ کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے پھر وہاں سے باہر نکل کر سوار ہو جاتے۔ پھر جب آپ کی سواری (مکے کی طرف) سیدھی ہو جاتی تو لبیک کہتے۔ [الموطا 333/1 ح749 وسنده صحيح]
نیز دیکھئے [صحيح بخاري 1514 اور صحيح مسلم 11187، ترقيم دارالسلام 2820-2822]
④ تلبیہ (لبیک الخ) اونچی آواز سے کہنا چاہئے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1814، والموطا 1 / 334 ح 751 و سنده صحيح]
یہ حکم مردوں کے لئے ہے کیونکہ امام مالک نے اہلِ علم سے نقل کیا ہے کہ عورتیں اونچی آوزا سے لیبک نہیں کہیں گی۔ [الموطأ 1/334 ح752]
⑤ حق بات بیان کردینی چاہئے چاہے لوگ خوش ہوں یا ناراض ہوں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنا افضل جہاد ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 5/251 ح22158 وسنده حسن، 5/256 ح22207 وسنده حسن، وسنن ابن ماجه 4012]
⑥ صحابہ میں سے ہر ایک نے جو دیکھا سنا تو اسے اپنے علم کے مطابق روایت کردیا، یاد رہے کہ روایات کی تفاصیل میں تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ اختلاف تناقض نہیں ہے بلکہ سب روایات کو اکٹھا کرکے ان کا مفہوم سمجھنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 189   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2748  
´تلبیہ کس طرح پکارا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پکارتے سنا، آپ کہہ رہے تھے: «لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» حاضر ہوں تیری خدمت میں اے رب! حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک و ساجھی دار نہیں، حاضر ہوں میں، تمام تعریفیں تجھی کو سزاوار ہیں اور تمام نعمتیں تیری ہی عطا کردہ ہیں، تیری ہی سلطنت ہے، تیرا کوئی ساجھی و شریک نہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھی کہ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2748]
اردو حاشہ:
(1) احرام میں دل کی نیت اصل ہے لیکن اس کے ساتھ زبان سے لبیک کی ادائیگی کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ صرف دو ان سلی سادہ چادریں پہننے سے احرام شروع نہیں ہوتا جب تک دل کی نیت اور لبیک کی ادائیگی نہ ہو۔
(2) لبیک عام طور پر کسی کے بلانے کے جواب میں کہا جاتا ہے۔ غالباً یہ لبیک اس اعلان کے جواب میں ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے حج کی فرضیت کے بارے میں بیت اللہ کی تکمیل کے بعد کیا تھا کیونکہ اس اعلان کا تعلق ہر انسان سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ حج کرنے جاتا ہے۔ (یاد رہے کہ یہاں حج سے مراد حج اور عمرہ دونوں ہیں کیونکہ عمرے کو حج اصغر بھی کہا جاتا ہے۔)
(3) لبیک مختصر ہے ایک لمبے جملے سے، جس کے معنیٰ ہیں: اے اللہ! میں تیرے حضور بار بار اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی نماز وغیرہ میں بھی ہے لیکن حج کی پیشی ایک خصوصی رنگ رکھتی ہے، لہٰذا لبیک حج ہی کے ساتھ خاص ہے۔
(4) لبیک پکارنے کو اِھلال کہا جاتا ہے کیونکہ اِھلال کے معنیٰ ہیں، آواز بلند کرنا۔ چونکہ لبیک بلند آواز سے پکاری جاتی ہے لہٰذا اسے اِھلال کہتے ہیں، پھر چونکہ لبیک سے احرام شروع ہوتا ہے، اس لیے اھلال احرام کے معنیٰ میں بھی آتا ہے۔
(5) جب اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوتی احرام کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کر کے ان سلی اور سادہ دو چادریں تہ بند اور قمیص کی جگہ لپیٹ لی جائیں، پھر فوراً لبیک شروع کر دیا جائے اور پھر وقتاً فوقتاً بلند آواز سے لبیک پکارتے رہیں۔ عمرے والا حرم تک اور حج والا 10 تاریخ کو رمی کی آخری کنکری کے ساتھ تلبیہ بند کرے گا۔ نبیﷺ نے نماز کے فوراً بعد ہی لبیک کہہ دیا تھا مگر وہ چند قریبی افراد نے سنا، پھر جب آپ سواری پر سوار ہوئے تو پھر لبیک پکارا جو پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا مگر سب نے نہیں، پھر آپ بیداء کے ٹیلے پر چڑھے تو پھر لبیک پکارا جو تقریباً سب نے سنا۔ جس نے جہاں سنا، بیان کر دیا، کوئی اختلاف نہیں۔
(6) تلبیہ آپ نے سب سے پہلے کون سی نماز کے بعد پکارا؟ ایک رائے کے مطابق نماز فجر کے بعد۔ موقف ہذا کی دلیل میں صحیح بخاری کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، حدیث: 1551) لیکن اس حدیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں۔ صحیح مسلم (حدیث: 1243) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نماز ظہر تھی اور یہی درست ہے کیونکہ نبیﷺ عصر کے وقت ذوالحلیفہ پہنچے تھے، اور آپ نے عصر کی نماز قصر، یعنی دو رکعت ادا فرمائی تھی، پھر رات آپ نے ذوالحلیفہ ہی میں گزاری اور دوسرے روز نماز ظہر کے فوراً بعد تلبیے کا آغاز فرمایا، پھر جب آپ اونٹنی پر بیٹھ گئے تو تلبیہ پکارا اور اسی طرح بیداء (ٹیلے) پر تلبیہ پکارا۔
(7) بعض روایات میں ہے، نبیﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی (صحیح البخاري، حدیث: 1532) یہ نماز احرام کی دو رکعتیں تھیں یا عصر کے دو فرض تھے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ظاہری الفاظ سے دونوں باتیں محتمل ہیں، لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ آپ نے ذوالحلیفہ میں جو دو رکعتیں ادا فرمائی تھیں، وہ عصر کی نماز دوگانہ تھی۔ دیکھیے: (فتح الباري: 3/ 493، مطبوعة دارالسلام، زیر بحث حدیث: 1532) اس لیے اسے احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے حکم یا استحباب کے لیے نص قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبیﷺ آتے جاتے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ اس سے مطلقاً ذوالحلیفہ میں بطور تبرک کے دو رکعت پڑھنے کا جواز یا استحباب تو معلوم ہوتا ہے لیکن احرام کے وقت یا احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا اثبات نہیں ہوتا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں، البتہ وہ وقت فرض نماز کا ہو تو نماز کے بعد احرام باندھا جائے، رسول اللہﷺ کا اسوہ بھی یہی ہے۔ (مناسک الحج والعمرة، للألباني، ص: 15، 16 مکتبة المعارف، الریاض)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2748   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 593  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسجد کے پاس لبیک پکارا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 593]
593 لغوی تشریح:
«بَابُ الْاِحْرَامِ احرام» حج یا عمرے میں داخل ہونے کا نام ہے۔ اسے احرام، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں داخل ہو جانے والے پر بہت سی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو اس سے پہلے حلال تھیں۔
«إلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسَجِدِ» مگر صرف مسجد کے پاس سے۔ مسجد سے مسجد ذوالحلیفہ مراد ہے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تھی اس وقت آپ نے تلبیہ کہا۔ یہ بات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان حضرات کی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے کہی ہے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔ احادیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت لبیک پکارا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات پڑھ لی تھیں، یعنی آپ مسجد کے اندر ہی تھے کہ آپ نے لبیک کہا۔ اور یہ بھی منقول ہے کہ جب بیداء کی چوٹی پر چڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک کہا۔ یہ احادیث بظاہر آپس میں متعارض ہیں مگر ان میں یوں تطبیق دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا اور جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اسی کا ذکر کیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر بآواز بلند لبیک کہا تو باہر دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے احرام ابھی ابھی باندھا ہے، پھر جب بیداء پر پہنچے اور لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا تو انہوں نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے احرام باندھا ہے۔ گویا ہر فریق نے اپنے اپنے مشاہدے کے مطابق خبر دی، اس لیے روایات میں کوئی تناقض نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 593   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 818  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کس جگہ سے احرام باندھا؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا) ۱؎ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 818]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔

2؎:
ان روایات میں بظاہر تعارض ہے،
ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے،
پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے،
گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 818   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1771  
´احرام کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہی وہ بیداء کا مقام ہے جس کے بارے میں تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط بیان کرتے ہو کہ آپ نے تو مسجد یعنی ذی الحلیفہ کی مسجد کے پاس ہی سے تلبیہ کہا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1771]
1771. اردو حاشیہ:
➊ حضرت عبداللہ بن عمر کامقصد اس بات کی نفی کرنا ہے جوبعض نے بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ بیداء کےمقام پر پکارا تھا بلکہ آپ نے اس کا آغاز مسجد ذوالحلیفہ ہی سے کر دیا تھا۔
➋ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ذوالحلیفہ کےمقام پر کوئی باقاعدہ مسجد نہ تھی۔ احادیث میں لغوی معنی مراد ہیں۔یعنی جس جگہ آپ نے نماز پڑھی یہاں اس وقت ایک درخت بھی تھا۔ باقاعدہ تعمیر بعد کےکسی دور میں ہوئی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1771