سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
56. بَابُ : الْعَمَلِ فِي الإِهْلاَلِ
باب: تلبیہ کب پکاریں؟
حدیث نمبر: 2758
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، سَمِعَ أَبَاهُ يَقُولُ: بَيْدَاؤُكُمْ هَذِهِ الَّتِي تَكْذِبُونَ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ".
سالم سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: تمہارا یہ بیداء وہی ہے جس کے تعلق سے تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرتے ہو ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بیداء سے نہیں) ذوالحلیفہ کی مسجد ہی سے تلبیہ پکارا ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج20 (1541)، صحیح مسلم/الحج4 (1186)، سنن ابی داود/الحج21 (1771)، سنن الترمذی/الحج8 (818)، (تحفة الأشراف: 7020)، موطا امام مالک/الحج 9 (30)، مسند احمد (2/10، 28، 66، 85، 111، 154) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں، خواہ یہ عمداً ہو یا کسی غلط فہمی اور سہو کی وجہ سے ہو، ابن عمر رضی الله عنہما نے انہیں جھوٹا اس اعتبار سے کہا ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے نہ اس اعتبار سے کہ انہوں نے عمداً جھوٹ کہا ہے۔ ۲؎: اس مسئلہ میں صحابہ میں اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ آپ نے احرام ذو الحلیفہ میں احرام کی دونوں رکعتوں کے پڑھنے کے بعد مسجد میں ہی تلبیہ پکارنا شروع کیا تھا اور بعض کا کہنا ہے کہ جس وقت آپ سواری پر سیدھے بیٹھے اس وقت آپ نے تلبیہ پکارا، اور بعض کا کہنا ہے کہ سواری جس وقت آپ کو لے کر کھڑی ہوئی اس وقت آپ نے تلبیہ پکارنا شروع کیا، اس اختلاف کی وجہ ہے کہ لوگ مختلف وقتوں میں الگ الگ مختلف ٹکڑوں میں آپ کے پاس آ رہے تھے تو لوگوں نے جہاں آپ کو تلبیہ پکارتے سنا یہی سمجھا کہ آپ نے یہیں سے تلبیہ شروع کیا ہے، حالانکہ آپ نے تلبیہ پکارنے کی شروعات وہیں کر دی تھی جہاں آپ نے احرام کی دونوں رکعتیں پڑھی تھیں، پھر جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ نے تلبیہ پکارا، پھر بیداء کی اونچائی پر چڑھتے وقت آپ نے تلبیہ پکارا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 319  
´مدینے والوں کو مقام ذوالحلیفہ سے تلبیہ کہنا چاہئے`
«. . . عن سالم بن عبد الله انه سمع اباه يقول: بيداؤكم هذه التى تكذبون على رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، ما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد، يعني مسجد ذي الحليفة. . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے (اے لوگو!) یہ تمہارا بیداء (ایک خاص میدانی مقام) جسے تم غلطی سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے ہو (حالانکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس سے ہی لبیک کہی تھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 319]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 1541، ومسلم 1186، من حديث مالك به]
تفقه:
① جو شخص حدیث کی مخالفت کرے تو مصلحت کے ساتھ اس کا سختی سے رد کرنا جائز ہے۔
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں ہر قول و فعل مردود ہے۔
③ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ذوالحلیفہ کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے پھر وہاں سے باہر نکل کر سوار ہو جاتے۔ پھر جب آپ کی سواری (مکے کی طرف) سیدھی ہو جاتی تو لبیک کہتے۔ [الموطا 333/1 ح749 وسنده صحيح]
نیز دیکھئے [صحيح بخاري 1514 اور صحيح مسلم 11187، ترقيم دارالسلام 2820-2822]
④ تلبیہ (لبیک الخ) اونچی آواز سے کہنا چاہئے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1814، والموطا 1 / 334 ح 751 و سنده صحيح]
یہ حکم مردوں کے لئے ہے کیونکہ امام مالک نے اہلِ علم سے نقل کیا ہے کہ عورتیں اونچی آوزا سے لیبک نہیں کہیں گی۔ [الموطأ 1/334 ح752]
⑤ حق بات بیان کردینی چاہئے چاہے لوگ خوش ہوں یا ناراض ہوں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنا افضل جہاد ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 5/251 ح22158 وسنده حسن، 5/256 ح22207 وسنده حسن، وسنن ابن ماجه 4012]
⑥ صحابہ میں سے ہر ایک نے جو دیکھا سنا تو اسے اپنے علم کے مطابق روایت کردیا، یاد رہے کہ روایات کی تفاصیل میں تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ اختلاف تناقض نہیں ہے بلکہ سب روایات کو اکٹھا کرکے ان کا مفہوم سمجھنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 189   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2758  
´تلبیہ کب پکاریں؟`
سالم سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: تمہارا یہ بیداء وہی ہے جس کے تعلق سے تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرتے ہو ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بیداء سے نہیں) ذوالحلیفہ کی مسجد ہی سے تلبیہ پکارا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2758]
اردو حاشہ:
(1) عام لوگوں میں مشہور تھا کہ رسول اللہﷺ نے بیداء کے میدان میں لبیک کہنا شروع فرمایا لیکن یہ درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ذوالحلیفہ میں بہ حیثیت مسافر، ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور سلام کے بعد وہیں لبیک پکارا مگر وہ صرف چند قریبی ساتھیوں نے سنا، پھر آپ سواری پر تشریف فرما ہوئے تو پھر لبیک پکارا۔ اسے پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا، پھر آپ بیداء میں پہنچے تو آپ نے پھر لبیک پکارا۔ وہ تقریباً سب لوگوں نے سنا۔ جس نے جس جگہ سنا، اسی کے بارے میں بیان کیا۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ اپنے اپنے علم کی بات ہے، البتہ احرام کی ابتدا ذوالحلیفہ سے ہوئی اور وہیں آپ نے لبیک کہنا شروع کیا تھا۔
(2) جھوٹ بولتے ہو۔ یعنی تمھیں غلط فہمی ہے کہ آپ نے لبیک کی ابتدا بیداء سے فرمائی۔ عربی میں غلط فہمی کو بھی جھوٹ کہہ لیتے ہیں کیونکہ دونوں خلاف واقعہ ہوتے ہیں۔
(3) ذوالحلیفہ کی مسجد اس وقت وہاں مسجد نہیں تھی۔ مسجد بعد میں بطور یادگار بنائی گئی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2758   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 593  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسجد کے پاس لبیک پکارا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 593]
593 لغوی تشریح:
«بَابُ الْاِحْرَامِ احرام» حج یا عمرے میں داخل ہونے کا نام ہے۔ اسے احرام، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں داخل ہو جانے والے پر بہت سی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو اس سے پہلے حلال تھیں۔
«إلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسَجِدِ» مگر صرف مسجد کے پاس سے۔ مسجد سے مسجد ذوالحلیفہ مراد ہے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تھی اس وقت آپ نے تلبیہ کہا۔ یہ بات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان حضرات کی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے کہی ہے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔ احادیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت لبیک پکارا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات پڑھ لی تھیں، یعنی آپ مسجد کے اندر ہی تھے کہ آپ نے لبیک کہا۔ اور یہ بھی منقول ہے کہ جب بیداء کی چوٹی پر چڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک کہا۔ یہ احادیث بظاہر آپس میں متعارض ہیں مگر ان میں یوں تطبیق دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا اور جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اسی کا ذکر کیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر بآواز بلند لبیک کہا تو باہر دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے احرام ابھی ابھی باندھا ہے، پھر جب بیداء پر پہنچے اور لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا تو انہوں نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے احرام باندھا ہے۔ گویا ہر فریق نے اپنے اپنے مشاہدے کے مطابق خبر دی، اس لیے روایات میں کوئی تناقض نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 593   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 818  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کس جگہ سے احرام باندھا؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا) ۱؎ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 818]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔

2؎:
ان روایات میں بظاہر تعارض ہے،
ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے،
پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے،
گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 818   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1771  
´احرام کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہی وہ بیداء کا مقام ہے جس کے بارے میں تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط بیان کرتے ہو کہ آپ نے تو مسجد یعنی ذی الحلیفہ کی مسجد کے پاس ہی سے تلبیہ کہا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1771]
1771. اردو حاشیہ:
➊ حضرت عبداللہ بن عمر کامقصد اس بات کی نفی کرنا ہے جوبعض نے بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ بیداء کےمقام پر پکارا تھا بلکہ آپ نے اس کا آغاز مسجد ذوالحلیفہ ہی سے کر دیا تھا۔
➋ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ذوالحلیفہ کےمقام پر کوئی باقاعدہ مسجد نہ تھی۔ احادیث میں لغوی معنی مراد ہیں۔یعنی جس جگہ آپ نے نماز پڑھی یہاں اس وقت ایک درخت بھی تھا۔ باقاعدہ تعمیر بعد کےکسی دور میں ہوئی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1771