صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
67. بَابُ مَا يَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فِي السَّمْنِ وَالْمَاءِ:
باب: ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں۔
حدیث نمبر: 236
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ فَأْرَةٍ سَقَطَتْ فِي سَمْنٍ؟ فَقَالَ:" خُذُوهَا وَمَا حَوْلَهَا فَاطْرَحُوهُ"، قَالَ مَعْنٌ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ مَا لَا أُحْصِيهِ، يَقُولُ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معن نے، کہا ہم سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چوہے کے بارے میں دریافت کیا گیا جو گھی میں گر گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال کر پھینک دو۔ معن کہتے ہیں کہ مالک نے اتنی بار کہ میں گن نہیں سکتا (یہ حدیث) ابن عباس سے اور انہوں نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 236  
´ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ فَأْرَةٍ سَقَطَتْ فِي سَمْنٍ؟ فَقَالَ: " خُذُوهَا وَمَا حَوْلَهَا فَاطْرَحُوهُ "، قَالَ مَعْنٌ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ مَا لَا أُحْصِيهِ، يَقُولُ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ . . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چوہے کے بارے میں دریافت کیا گیا جو گھی میں گر گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال کر پھینک دو۔ معن کہتے ہیں کہ مالک نے اتنی بار کہ میں گن نہیں سکتا (یہ حدیث) ابن عباس سے اور انہوں نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَا يَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فِي السَّمْنِ وَالْمَاءِ:: 236]

تشریح:
پانی کم ہو یا زیادہ جب تک گندگی سے اس کے رنگ یا بو یا مزہ میں فرق نہ آئے، وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ ائمہ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے جن لوگوں نے قلتین یا دہ در دہ کی قید لگائی ہے ان کے دلائل قوی نہیں ہیں۔ «حديث الماءطهور لاينجسه شئي» اس بارے میں بطور اصل کے ہے۔ مردار جانوروں کے بال اور پر ان کی ہڈیاں جیسے ہاتھی دانت وغیرہ یہ پانی وغیرہ میں پڑ جائیں تو وہ پانی وغیرہ ناپاک نہ ہو گا۔ حضرت امام بخاری قدس سرہ کا منشائے باب یہی ہے۔ بعض علماء نے یہ فرق ضرور کیا ہے کہ گھی اگر جما ہوا ہو تو بقیہ گھی استعمال میں آ سکتا ہے اور اگر پگھلا ہوا سیال ہو تو سارا ہی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔ یہ اس صورت میں کہ چوہا اس میں گر جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 236   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 236  
236. حضرت میمونہ ؓ ہی سے روایت ہے، نبی ﷺ سے سوال ہوا کہ چوہا اگر گھی میں گر پڑے تو کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو پھینک دو۔ حضرت معن کہتے ہیں: امام مالک نے ہمیں کئی مرتبہ یہ حدیث بیان کی اور وہ یوں کہتے تھے: عن ابن عباس عن ميمونة رضى الله عنها [صحيح بخاري، حديث نمبر:236]
حدیث حاشیہ:
پانی کم ہو یا زیادہ جب تک گندگی سے اس کے رنگ یا بو یا مزہ میں فرق نہ آئے، وہ ناپاک نہیں ہوتا۔
ائمہ اہل حدیث کایہی مسلک ہے جن لوگوں نے قلتین یادہ دردہ کی قید لگائی ہے ان کے دلائل قوی نہیں ہیں۔
حدیث:
الماء طھور لاینجسه شيئ اس بارے میں بطور اصل کے ہے۔
مردار جانوروں کے بال اور پر ان کی ہڈیاں جیسے ہاتھی کے دانت وغیرہ یہ پانی وغیرہ میں پڑجائیں تو وہ پانی وغیرہ ناپاک نہ ہوگا۔
حضرت امام بخاری قدس سرہ کا منشائے باب یہی ہے۔
بعض علماء نے یہ فرق ضرور کیا ہے کہ گھی اگرجما ہوا ہو تو بقیہ گھی استعمال میں آسکتا ہے اور اگر پگھلا ہوا سیال ہو تو سارا ہی ناقابل استعمال ہوجائے گا۔
یہ اس صورت میں کہ چوہا اس میں گر جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 236   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1798  
´گھی میں مری ہوئی چوہیا کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے اور جو کچھ چکنائی اس کے اردگرد ہے اسے پھینک دو ۱؎ اور (بچا ہوا) گھی کھا لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1798]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جمی ہوئی چیز ہو،
اور اگر سیال ہے تو پھر پورے کو پھینک دیاجائے گا۔

2؎:
معمر کی مذکورہ روایت مصنف عبد الرزاق کی ہے،
معمر ہی کی ایک روایت نسائی میں (رقم: 4265) میمونہ سے بھی ہے جس میں سیال اور غیر سیال کا فرق ابوہریرہ ہی کی روایت کی طرح ہے،
سند اور علم حدیث کے قواعد کے لحاظ سے اگرچہ یہ دونوں روایات متکلم فیہ ہیں،
لیکن ایک مجمل روایت ہی میں نسائی کا لفظ ہے سمن جامد (جماہوا گھی) اور یہ سند صحیح ہے،
بہر حال اگر صحیحین کی مجمل روایت ہی کو لیا جائے تو بھی ارد گرد اسی گھی کا ہوسکتا ہے جو جامد ہو،
سیال میں ارد گرد ہو ہی نہیں سکتا،
کیوں کہ چوہیا اس میں گھومتی رہے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1798   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3841  
´گھی میں چوہیا گر جائے تو کیا کیا جائے؟`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی، آپ نے فرمایا: (جس جگہ گری ہے) اس کے آس پاس کا گھی نکال کر پھینک دو اور (باقی) کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3841]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ارد گرد کا گھی جہاں تک متاثر ہو اسے نکالنے کے بعد باقی گھی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
اگلی دونوں احادیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی فرق بیان کیا گیا ہے۔
محدثین بلکہ امام بخاری نے آگے آنے والی حدیث کو کئی علل اور اوہام کے حوالے سے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
لیکن اکثر فقہاء نے یہی کہا ہےکہ گھی جما ہوا ہو تو ارد گرد کے گھی سمیت چوہا نکال کر باقی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر پگھلا ہوا ہو تو اسے کھانے میں استعمال نہ کیا جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بھی یہی ہے۔
بعض محدثین نے گھی یاتیل چاہے پگھلا ہوا ہو۔
اس میں اردگرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
خوردنی تیل ملائشیا وغیرہ سے بڑے بڑے بحری جہازوں میں آتا ہے۔
ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل بسیرا بنا کر رہتے ہیں اگر ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
امام بخاری کی رائے بھی اس کی مؤید ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3841   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:236  
236. حضرت میمونہ ؓ ہی سے روایت ہے، نبی ﷺ سے سوال ہوا کہ چوہا اگر گھی میں گر پڑے تو کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو پھینک دو۔ حضرت معن کہتے ہیں: امام مالک نے ہمیں کئی مرتبہ یہ حدیث بیان کی اور وہ یوں کہتے تھے: عن ابن عباس عن ميمونة رضى الله عنها [صحيح بخاري، حديث نمبر:236]
حدیث حاشیہ:

سنن نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ چوہیا جمے ہوئے گھی میں گرجائے۔
(سنن نسائي، الفرع والعتیرة، حديث: 4263)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ وہ چوہیا گھی میں گرنے کے بعد اس میں مر جائے۔
(صحیح البخاري، الذبائح، حدیث: 5538)
سنن ابی داود میں مزید وضاحت ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
اگرچوہا گھر میں گرجائے، اگرگھی جما ہوا ہے تو چوہے اور اس کے اردگرد کے گھی کو پھینک دواور اگرگھی سیال ہے تو اس کے پاس مت جاؤ۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842)
حدیث بخاری سے صرف جامد کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے، سیال کا نہیں کیونکہ اگر سیال میں نجاست گرے گی تو اس کے آس پاس کے حصے کا تعین کرنا اور پھینکنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ جس طرف سے بھی اسے الٹنا چاہیں گے اس کی جگہ فوراً دوسرے حصے پیچھے سے آجائیں گے اور وہ بھی اردگرد کے حصے بن جائیں گے یہاں تک کہ پورے کو پھینکنا پڑے گا اور القائے ماحول (اردگرد کے پھینکنے)
کا حکم صرف جامد میں جاری ہو سکتا ہے، سیال اشیاء میں یہ حکم جاری نہیں ہوسکتا۔
اگرچہ حدیث بخاری اپنے الفاظ اور منطوق کے لحاظ سے سیال اور جامد کے فرق پر دلالت نہیں کرتی، تاہم اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے جامد اور سیال کا فرق بتلارہی ہے۔
حدیث بخاری کے مفہوم مذکور کی تائید ابوداؤد کی حدیث ابی ہریرہ ؓ (نمبر3842)
اور سنن نسائی کی حدیث میمونہ (نمبر 4264)
کے منطوق سے بھی ہوتی ہے۔

امام بخاری ؒ کے قائم کردہ ایک عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جامد اورسیال کا کوئی فرق نہیں، چنانچہ کتاب الذبائح والصید میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں:
(باب إذا وقعت الفأرة في السمن الجامد أو الذائب)
جب جامد یا سیال گھی میں چوہیا گرجائے۔
اس کے تحت انھوں نے حدیث میمونہ ذکر کی ہے، نیز انھوں نے امام زہری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان سے سوال ہواکہ اگر کوئی بھی جاندار(چوہیا وغیرہ)
گھی یاتیل میں گرجائے، وہ جامد ہو یا سیال تو کیا حکم ہے؟ تو انھوں نے فرمایا:
ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھی میں گرنے والی چوہیا کے متعلق فرمایا کہ اسے اور اس کے آس پاس والے گھی کو پھینک دو۔
اسے پھینک دیا گیا باقی ماندہ کو استعمال کرلیا گیا۔
(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث: 5539)
لیکن امام زہری ؒ کے اس ضابطے پر اعتراض ہوتا ہے کہ القاء ماحول جامد میں تو ہوسکتا ہے، لیکن سیال میں کیسے اس پر عمل کیا جائے گا؟ امام بخاری ؒ نے روایت:
اگر وہ سیال ہے تو اس کے قریب نہ جاؤ۔
کو معلول قراردیا ہے جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن میں ان کے قول کا حوالہ دیا ہے۔
(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1798)
بہرحال اس سلسلے میں صحیح بات یہی ہے کہ ا گرگھی، شہد، دودھ اور پانی وغیرہ میں نجاست گرجائے تو دیکھا جائے اگرجامد ہے تونجاست اور اس کے ماحول کو باہر پھینک دیا جائے اور باقی قابل استعمال ہے اور اگرسیال ہے تو اسے پھینک دیا جائے اور استعمال نہ کیاجائے۔
واللہ أعلم۔

محدثین کرام کا ان احادیث کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مسانید ابن عباس ؓ ہیں یا ان کا شمار مسانید حضرت میمونہ ؓ میں ہے؟ امام بخاری ؒ نے دونوں کے آخر میں فیصلہ دیا ہے کہ اصل حدیث ابن عباس ؓ عن میمونہ ؓ ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ کے واسطے سے لیا ہے اور یہ مسانید حضرت میمونہ ؓ سے ہے۔
حضرت معن نے بارہا اس روایت کو امام مالک سے عن ابن عباس عن میمونہ ؓ کے طریق سے سنا ہے اور یہی صحیح ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 236