سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
77. بَابُ : إِبَاحَةِ فَسْخِ الْحَجِّ بِعُمْرَةٍ لِمَنْ لَمْ يَسُقِ الْهَدْىَ
باب: جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2815
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ وُهَيْبِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانُوا يُرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرَ، وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ، وَعَفَا الْوَبَرْ، وَانْسَلَخَ صَفَرْ، أَوْ قَالَ: دَخَلَ صَفَرْ، فَقَدْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْحِلِّ؟ قَالَ:" الْحِلُّ كُلُّهُ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ (زمانہ جاہلیت میں) لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کر لینے کو زمین میں ایک بہت بڑا گناہ تصور کرتے تھے، اور محرم (کے مہینے) کو صفر کا (مہینہ) بنا لیتے تھے، اور کہتے تھے: جب اونٹ کی پیٹھ کا زخم اچھا ہو جائے، اور اس کے بال بڑھ جائیں اور صفر کا مہینہ گزر جائے یا کہا صفر کا مہینہ آ جائے تو عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ حلال ہو گیا چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح کو (مکہ میں) حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اسے عمرہ بنا لیں، تو انہیں یہ بات بڑی گراں لگی ۱؎، چنانچہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون کون سی چیزیں حلال ہوں گی؟ تو آپ نے فرمایا: احرام سے جتنی بھی چیزیں حرام ہوئی تھیں وہ ساری چیزیں حلال ہو جائیں گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج34 (1564)، مناقب الأنصار26 (3832)، صحیح مسلم/الحج31 (1240)، (تحفة الأشراف: 5714)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الحج80 (1987)، مسند احمد (1/252)، سنن الدارمی/المناسک 38 (1198) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ بات ان کے عقیدے کے خلاف تھی، وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2815  
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ (زمانہ جاہلیت میں) لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کر لینے کو زمین میں ایک بہت بڑا گناہ تصور کرتے تھے، اور محرم (کے مہینے) کو صفر کا (مہینہ) بنا لیتے تھے، اور کہتے تھے: جب اونٹ کی پیٹھ کا زخم اچھا ہو جائے، اور اس کے بال بڑھ جائیں اور صفر کا مہینہ گزر جائے یا کہا صفر کا مہینہ آ جائے تو عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ حلال ہو گیا چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2815]
اردو حاشہ:
(1) سب سے بڑا گناہ ہے۔ ان کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں صرف حج ہی کرنا چاہیے۔ عمرے کے لیے بعد میں الگ سے سفر کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ چونکہ اس میں دور سے آنے والے لوگوں کے لیے تنگی تھی، لہٰذا شریعت نے دور سے آنے والوں کے لیے حج سے پہلے عمرے کی اجازت دے دی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اب بھی بہتر یہی ہے کہ حج کے دنوں میں حج ہی کیا جائے۔ عمرہ حج کے علاوہ باقی دنوں میں کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ ویسے ان کے نزدیک تمتع بھی جائز ہے، البتہ افضل نہیں۔
(2) حج کے مہینوں سے مراد ہیں: شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ کے پہلے 9 دن کیونکہ ان دنوں میں حج کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ بعض نے پورا ذوالحجہ بھی مراد لیا ہے کیونکہ اس کا نام ہی حج کا مہینہ ہے، لہٰذا ان کے نزدیک عمرہ ذوالحجہ کے بعد ہی ہونا چاہیے، الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو جیسے حضرت عائشہؓ کو تھی۔
(3) محرم کو صفر ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تین مہینے اکٹھے حرمت کے ہیں۔ جب کفار کو مسلسل تین مہینے حرمت کے گزارنے مشکل ہو جاتے تو وہ محرم کو صفر قرار دے لیتے۔ اپنی تنگی دور کرنے کے بعد صفر کو محرم قرار دے لیتے اور حرمت کی پابندیوں پر عمل کرتے تاکہ گنتی پوری ہو جائے، مگر یہ شریعت کے ساتھ مذاق ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے شریعت کا حکم بدل دیا جائے۔ اسی لیے قران مجید نے اس کے بارے میں برے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں: ﴿إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴾ (التوبة: 37) عربی میں اس فعل کونسی (تاخیر) کہا جاتا ہے۔
(4) زخم ٹھیک ہو جائیں۔ حج کے سفر کے دوران میں پالان لگ لگ کر پیٹھ پر زخم بن جاتے تھے۔ ان کا مطلب تھا کہ جب تک وہ زخم ٹھیک نہیں ہو جاتے، عمرے کا سفر شروع نہ کیا جائے۔
(5) اون اگ آئے پالانوں کی وجہ سے اون جھڑ جاتی تھی، نیز زخموں والی جگہ بھی اون سے خالی ہو جاتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ دوبارہ اچھی طرح اون اگ آئے، تب عمرے کا سفر شروع کیا جائے۔
(6) اور صفر گزر جائے۔ مراد محرم ہے کیونکہ وہ محرم کو صفر بنا لیتے تھے، لہٰذا دوسرا جملہ یا صفر شروع ہو جائے۔ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس دوسرے جملے میں صفر سے حقیقی صفر مراد ہے، یعنی محرم گزر جائے اور صفر شروع ہو جائے تو پھر وہ عمرہ کرنے کے قائل تھے۔ (باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2815   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1804  
´حج قران کا بیان۔`
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1804]
1804. اردو حاشیہ: حج قران کے لیے تلبیہ میں یہ جائز ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» ‏‏‏‏ کہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1804