سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
80. بَابُ : إِذَا ضَحِكَ الْمُحْرِمُ فَفَطِنَ الْحَلاَلُ لِلصَّيْدِ فَقَتَلَهُ أَيَأْكُلُهُ أَمْ لاَ
باب: جب محرم شکار کو دیکھ کر ہنسے اور غیر محرم تاڑ جائے اور شکار کر ڈالے تو کیا محرم اسے کھائے یا نہ کھائے؟
حدیث نمبر: 2828
أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ النَّسَائِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُبَارَكِ الصُّورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَهُوَ ابْنُ سَلَّامٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ , أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، قَالَ: فَأَهَلُّوا بِعُمْرَةٍ غَيْرِي، فَاصْطَدْتُ حِمَارَ وَحْشٍ، فَأَطْعَمْتُ أَصْحَابِي مِنْهُ وَهُمْ مُحْرِمُونَ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّ عِنْدَنَا مِنْ لَحْمِهِ فَاضِلَةً، فَقَالَ:" كُلُوهُ وَهُمْ مُحْرِمُونَ".
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ غزوہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، وہ کہتے ہیں کہ میرے علاوہ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا ہے تھا۔ تو میں نے (راستہ میں) ایک نیل گائے کا شکار کیا اور اس کا گوشت اپنے ساتھیوں کو کھلایا، اور وہ محرم تھے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو میں نے بتایا کہ ہمارے پاس اس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہے، تو آپ نے (لوگوں سے) فرمایا: کھاؤ، اور وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2827 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 599  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کے جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں جبکہ انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا اور وہ احرام والے تھے کیا تم میں سے کسی نے اسے حکم دیا تھا یا اس کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس کھاؤ اس کے گوشت سے جو بچ گیا ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 599]
599 لغوی تشریح:
«فِي فِصَّةِ صَيْدِهِ الْحِمَارِ الْوَحْشِي» جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے، مگر اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا، البتہ ان کے ساتھی احرام کی حالت میں تھے۔ جب انہوں نے وحشی گدھا دیکھا تو اسے نظر انداز کر دیا۔ جب ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ساتھیوں سے کہا کہ میری لاٹھی پکڑاؤ، انہوں نے اس سے انکار کر دیا، پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے زخمی کر دیا۔ ذبح کر کے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا گوشت کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا مگر پھر وہ پریشان ہو گئے۔ بالآخر جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سارا ماجرا عرض کیا جس کا جواب اس روایت میں مذکور ہے۔
➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنگلی جانور کا شکار جب غیر محرم کرے اور محرم نے اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہ کی ہو اور نہ اس بارے میں کوئی اشارہ ہی کیا ہو تو محرم بھی اس میں سے کھا سکتا ہے مگر اس بارے میں مزید تفصیل ہے جو آئندہ حدیث کے تحت آرہی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 599