صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
12. بَابُ إِذَا أَذِنَ لَهُ أَوْ أَحَلَّهُ وَلَمْ يُبَيِّنْ كَمْ هُوَ:
باب: اگر کوئی شخص دوسرے کو اجازت دے یا اس کو معاف کر دے مگر یہ بیان نہ کرے کہ کتنے کی اجازت اور معافی دی ہے۔
حدیث نمبر: 2451
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ الْأَشْيَاخُ، فَقَالَ لِلْغُلَامِ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَ هَؤُلَاءِ، فَقَالَ الْغُلَامُ: لَا، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا أُوثِرُ بِنَصِيبِي مِنْكَ أَحَدًا، قَالَ: فَتَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ یا پانی پینے کو پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر والے تھے۔ لڑکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم مجھے اس کی اجازت دو گے کہ ان لوگوں کو یہ (پیالہ) دے دوں؟ لڑکے نے کہا، نہیں اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! آپ کی طرف سے ملنے والے حصے کا ایثار میں کسی پر نہیں کر سکتا۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ اسی لڑکے کو دے دیا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديثموطا امام مالك رواية ابن القاسم 472  
´کسی چیز کو تقسیم کرتے وقت دائیں طرف سے آغاز کیا جائے`
«. . . 413- وبه: أن النبى صلى الله عليه وسلم أتي بشراب فشرب منه وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ، فقال للغلام: أتأذن لي أن أعطي هؤلاء فقال: لا والله يا رسول الله، لا أوثر بنصيبي منك أحدا، قال: فتله رسول الله صلى الله عليه وسلم فى يده. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مشروب (یعنی دودھ) لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے لوگ تھے تو آپ نے لڑکے سے کہا: اگر تم مجھے اجازت دو تو ان (بڑی عمر کے) لوگوں کو یہ (بچا ہوا حصہ) دے دوں؟ اس لڑکے نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں آپ کے جوٹھے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 472]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5620، و مسلم 2030، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ پینے پلانے کی چیز تحفہ دینے یا پینے پلانے میں دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے، اگرچہ بائیں طرف افضل انسان بھی موجود ہوں
➋ بڑوں کی دائیں طرف چھوٹے بچے بیٹھ سکتے ہیں بہتر یہی ہے کہ انھیں بائیں طرف بٹھایا جائے۔
➌ کبار علماء کی مجلس میں طالب علم بھی بیٹھ سکتے ہیں اور اسی طرح افضل کے ساتھ مفضول کا بیٹھنا جائز ہے۔
➍ بہتر یہی ہے کہ اگر کسی کے پاس کھانے پینے کا تحفہ لایا جائے تو وہ اپنے ساتھ مجلس کے دوسرے ساتھیوں کو بھی شریک کرلے لیکن یہ واجب یا ضروری نہیں ہے۔
➎ شرعی حدود کا ہر وقت خیال رکھنا چاہئے۔
➏ نیز دیکھئے حدیث [البخاري 5619، ومسلم 2029]
اردو لغات میں جوٹھے کو جھوٹا لکھا جاتا ہے جب کہ ہمارے نزدین لفظ جوٹھا زیادہ فصیح ہے۔ واللہ اعلم
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 413   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2351  
´پانی کی تقسیم اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے`
«. . . عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ، قَالَ: مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِفَضْلِي مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ . . .»
. . . سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2351]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2351 کا باب: «بَابٌ في الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ الْمَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِيَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَيْرَ مَقْسُومٍ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
الفاظ حدیث میں لفظ شرب آیا ہے۔ علامہ نسفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«شِرب: بكسر الشين»، پانی کا حصہ، گھاٹ، پینے کا وقت، اس کی جمع «أشراب» ہو گی، باب «سَمِعَ» سے مصدر ہے، اور ضمہ اور فتحہ سے بھی پڑھا گیا ہے۔ [طلبة الطلبة للنسفي، ص: 312]
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [جمهرة الأمثال، ج 1، ص: 81 - مجمع الأمثال، ص: 43]
صاحب «مُغرِب» رقمطراز ہیں:
«شِرب، لغة» شین کے کسرے کے ساتھ ہے، پانی کے حصے کو کہتے ہیں اور شرعا اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے یا اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے اپنے حصہ کی باری کو کہتے ہیں۔ [المُغرب، ج 1، ص: 436]
لہذا ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ اس مقصد کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی پر انسانی ملکیت جاری ہو سکتی ہے اور اس کو مملوک بھی بنانا جائز ہے۔ امام ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مراد أن الماء يملك، ولهذا استأذن النبى صلى الله عليه وسلم بعض الشركاء فيه، ورتب قسمته يمنة ويسرة . . .» [فتح الباري، ج 1، ص: 17]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ پانی پر انسانی ملکیت جاری ہو سکتی اور اس کو مملوک بنانا بھی جائز ہے۔ اس لیے حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شرکاء سے اس کی تقسیم کے لیے اجازت طلب فرمائی، اور اس کی تقسیم کو دائیں اور بائیں جانب مرتب فرمایا، اگر وہ اپنی اباحت پر باقی رہتا تو نہ ہی کسی کی ملک میں داخل ہوتا اور نہ ہی اجازت اور ترتیب تقسیم کی ضرورت پیش آتی۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ترجمۃ الباب سے جو مناسبت ہے وہ اس جہت سے ہے کہ پانی کا تقسیم کرنا مشروع ہے کیونکہ خاص کیا گیا ہے ان لوگوں کو جو دائیں جانب ہوا کرتے ہیں، یعنی انہی لوگوں سے ابتداء کی جائے تقسیم کے لیے۔ لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب سے مناسبت ہو گی۔ [. . . . . التراجم والأبواب، ج 00، ص: 00]
لہذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں دائیں طرف صحابی کے بیٹھنے سے ان کا استحقاق ہو گیا تھا۔ اگر ان کا استحقاق ہی نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اجازت طلب کیوں فرماتے؟ لہذا اگر آدمی پانی کو اپنے تصرف میں لے آئے، اپنے مشکیزے وغیرہ میں رکھ لے تو بطریق اولی اس کا استحقاق اس پانی پر ثابت ہو جائے گا اور وہ پانی اس کی ملک ہو جائے گا۔ [فتح الباري، ج 6، ص 67]
لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ظاہر ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ایک اشکال وارد فرمایا ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کا حدیث پر اشکال:
«فإن قلت: ليس فى الحديث أن القدح كان فيه ماء؟» [عمدة القاري، شرح صحيح البخاري، ج 16، ص 281]
اس حدیث میں تو اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ وہ پیالہ پانی کا تھا، تو اس حدیث سے پانی کی ملکیت کے استحقاق کا مدعی کیسے ثابت ہوا؟
امام عبداللہ بن سالم البصری الشافعی رحمہ اللہ آپ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
«والحديث الأول لم يذكر فيه الشراب الذى كان فى القدح هل هو ماء أو لبن شيب بماء؟ و ظاهر الأمر انه كان لبنا، أى بل جاء مفسرا فى كتاب الأشربة بأنه لبن» [ضياء الساري، ج 18، ص: 15]
یعنی حدیث اول میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ پیالہ کس چیز کا تھا، یعنی اس میں کیا چیز تھی، پانی تھا، دودھ تھا، یا پانی اور دودھ ملا ہوا تھا؟ جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ وہ دودھ تھا جیسا کہ آگے «كتاب الأشربة» میں ذکر ہے کہ وہ دودھ کا پیالہ تھا۔
فائدہ:
داہنے ہاتھ پر جو صحابی تشریف رکھتے تھے وہ کون تھے؟ سنن الترمذی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔ [سنن الترمذي، رقم: 3455، و حسنه الألباني فى السلسلة الصحيحة: 2340، و ابن السني، رقم: 468]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و روى من طريق اسماعيل بن جعفر: أخبرني أبوحازم عن سهل بن سعد قال: أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بقدح من لبن و غلام عن يمينه و الأشياخ امامه و عن يساره . . . الحديث» [التمهيد، ج 21، ص: 132]
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يقال أن الغلام هو الفضل بن العباس» [شرح ابن بطال، ج 6، ص: 494]
یعنی وہ لڑکا فضل بن عباس تھے۔
برہان الدین سبط ابن العجمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فضل بن عباس تھے۔ [تنبيه المسلم بمهمات صحيح مسلم، ص: 350]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی ایک روایت پیش فرمائی، اس میں سیدنا ابن عباس سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ [التمهيد، ج 21، ص: 123]
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس غلام سے مراد یہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جیساکہ گزر چکا ہے۔ [التوضيح، ج 15، ص: 311]
علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مراد ہیں۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 68]
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی مراد ہیں کیونکہ یہ قول متعین ہے جیسا کہ مسند ابن ابی شیبہ کی روایت سے صراحت ہوتی ہے۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لڑکے سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341 - تكملة فتح الملهم: 10/4]
بائیں جانب جو شیوخ تھے وہ کون تھے؟
امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: «اشياخ» میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی داخل ہیں۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341]
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و الأشياخ: خالد بن الوليد أو منهم خالد» [التوضيح، ج 15، ص: 311]
عبداللہ سالم البصری فرماتے ہیں:
«الأشياخ» میں خالد بن ولید شامل تھے۔ [ضياء الساري، ج 18، ص: 11]
بعض حضرات نے ابن التین رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: اگلی روایت میں جو فرمان «عن يمينه أعرابي» اس سے مراد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں۔ [عمدة القاري، ج 12، ص 282]
علامہ عینی رحمہ اللہ نے تعقب فرمایا ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اعرابی کہنا درست نہیں ہے اور نہ وہ مشائخ کی عمر کو پہنچے تھے۔
لہذا اگر دونوں واقعات جو مذکورہ احادیث میں موجود ہیں اور وہ واقعہ جو ترمذی، کتاب الدعوات، رقم 3455 میں مرقوم ہے، اگر ایک ہی ہے تو کوئی اشکال اس میں وارد نہیں ہے۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کا رد کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
«وتعقب بأن مثله لا يقال له اعرابي، وكأن الحامل له على ذالك أنه رأى فى حديث ابن عباس الذى أخرجه الترمذي قال دخلت أنا و خالد بن الوليد على ميمونة . . . فظن أن القصة واحدة، وليس كذالك فان هذه القصة فى بيت ميمونة وقصة أنس فى دار أنس فافترقا . . .» [فتح الباري، ج 5، ص: 27-28]
بعض حضرات کا یہ گمان ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی احادیث کا تعلق ایک ہی واقعے سے ہے تو انہوں نے اعرابی سے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مراد لیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ یہ قصہ تو سیدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کے گھر میں پیش آیا اور دوسرا واقعہ جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں پیش آیا۔
اور جہاں تک روایت مذکورہ میں «أشياخ» میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شمولیت کا مسئلہ ہے تو یہ قصہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث کا قصہ ایک ہی ہے تو اس میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شمولیت میں کوئی بھی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ یہ اس لیے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں اس بات کی کوئی ممانعت نہیں ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے علاوہ وہاں کوئی اور نہیں تھا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 362   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2451  
2451. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی مشروب لایاگیا جس سے آپ نے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ جبکہ بائیں جانب کچھ بزرگ لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں اپنا پس خوردہ (بچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں اللہ کے رسول ﷺ! میرا حصہ جو آپ سے مجھے ملنے والا ہے وہ میں کسی اور کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر کار آپ نے وہ پیالہ اسی کی ہاتھ میں تھمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2451]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ اس کا حق مقدم تھا وہ داہنی طرف بیٹھا تھا۔
اس حدیث کی باب سے مناسبت کے لیے بعض نے کہا کہ حضرت امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے وہ پیالہ بوڑھے لوگوں کو دینے کی ابن عباس ؓ سے اجازت مانگی اگر وہ اجازت دے دیتے تو یہ اجازت ایسی ہی ہوتی جس کی مقدار بیان نہیں ہوئی۔
یعنی یہ بیان نہیں کیا گیا کہ کتنے دودھ کی اجازت ہے۔
پس باب کا مطلب نکل آیا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2451   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2451  
2451. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی مشروب لایاگیا جس سے آپ نے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ جبکہ بائیں جانب کچھ بزرگ لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں اپنا پس خوردہ (بچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں اللہ کے رسول ﷺ! میرا حصہ جو آپ سے مجھے ملنے والا ہے وہ میں کسی اور کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر کار آپ نے وہ پیالہ اسی کی ہاتھ میں تھمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2451]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بزرگوں کو بچا ہوا مشروب دینے کے لیے برخوردار سے اجازت مانگی۔
اگر وہ اجازت دے دیتا تو یہ اجازت ایسی ہوتی جس میں مشروب کی مقدار معلوم نہیں کہ وہ کتنا پئیں گے اور خود اس کے حصے میں کیا آئے گا۔
اس سے امام بخاری ؒ نے عنوان ثابت کیا کہ اجازت دینے یا حق معاف کرنے کے لیے مقدار کا معلوم ہونا ضروری نہیں۔
(2)
بعض صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں وضاحت کرنا مناسب نہیں ہوتا۔
علامہ عینی کہتے ہیں:
اگر وہ لڑکا اجازت دے دیتا تو بزرگوں کے حصے میں جو آتا، اس کی مقدار بھی معلوم نہیں اور جو خود پیتا اس کی مقدار بھی معلوم نہیں تو قیاس سے معلوم ہوا کہ ایسی اجازت جس کی مقدار معلوم نہ ہو جائز ہے۔
(عمدة القاري: 201/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2451