سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
135. بَابُ : الْكَلاَمِ فِي الطَّوَافِ
باب: طواف کے درمیان باتیں کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2923
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ الْأَحْوَلُ، أَنَّ طَاوُسًا أَخْبَرَهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَرَّ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ بِإِنْسَانٍ يَقُودُهُ إِنْسَانٌ بِخِزَامَةٍ فِي أَنْفِهِ، فَقَطَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ يَقُودَهُ بِيَدِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جس کی ناک میں نکیل ڈال کر ایک آدمی اسے کھینچے لیے جا رہا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نکیل کاٹ دی، پھر اسے حکم دیا کہ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جائے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج65 (1620)، 66 (1621)، الأیمان والنذور31 (6703)، سنن ابی داود/الأیمان والنذور23 (3302)، (تحفة الأشراف: 5704)، مسند احمد (1/364)، ویأتی عند المؤلف برقم: 3841 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2923  
´طواف کے درمیان باتیں کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جس کی ناک میں نکیل ڈال کر ایک آدمی اسے کھینچے لیے جا رہا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نکیل کاٹ دی، پھر اسے حکم دیا کہ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جائے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2923]
اردو حاشہ:
(1) طواف عبادت ہے بلکہ اسے نماز بھی کہا گیا ہے کیونکہ طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مشروع کیا گیا ہے، لہٰذا اس میں فالتو کلام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ کا ذکر اور دعا ہو، البتہ کوئی ضروری یا علمی بات کی جا سکتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ناواقف کو مسئلہ بتایا گیا ہے۔
(2) نکیل ڈال کر نکیل ڈال کر چلنا چلانا بھی زہد اور عبادت کا ایک حصہ سمجھ لیا گیا تھا، مگر نکیل جانور کو ڈالی جاتی ہے، انسان کو نہیں کیونکہ وہ سننے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے زبان سے سمجھایا جائے یا ہاتھ سے پکڑ کر چلایا جائے۔ انسانوں کے لیے جانوروں کی مشابہت فطرت انسانیہ کے خلاف ہے۔ اسلام جو کہ دین فطرت ہے، ایسے برے کام کو عبادت کے نام پر کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ اس لیے آپ نے روکا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2923   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3302  
´معصیت کی نذر نہ پوری کرنے پر کفارہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ایک ایسے انسان کے پاس سے گزرے جس کی ناک میں ناتھ ڈال کر لے جایا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی ناتھ کاٹ دی، اور حکم دیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جاؤ۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3302]
فوائد ومسائل:
کسی کا نکیل ڈال کرچلنا یا اسے چلانا انسانی شرف کی توہین ہے۔
اسلامی شریعت اور اس قسم کی جہالتوں سے انسانوں کو آزاد کرنے کےلئے آئے ہیں۔
(وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ) (الأعراف:157) اور آپ(ﷺ) ان لوگوں پرجو بوجھ اور طوق تھے ان کو اتارتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3302