سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
145. بَابُ : ذِكْرِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ
باب: حجر اسود کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2938
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجر اسود جنت کا پتھر ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 49 (877)، مسند احمد 1/307، 329، 373 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2938  
´حجر اسود کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجر اسود جنت کا پتھر ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2938]
اردو حاشہ:
حجر اسود (سیاہ پتھر) کعبے کے مشرقی کونے میں نصب ہے۔ ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ پتھر جنت سے لایا گیا ہے اور یہ کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جنت کی کوئی چیز یہاں بھیج دے۔ بعض احادیث میں ہے کہ ابتداء ً یہ پتھر دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا۔ مگر لوگوں کی غلطیوں نے اسے سیاہ کر دیا۔ (صحیح الجامع الصغیر وزیادته، حدیث: 4449) رنگ بدل جانا تو اس کائنات میں اتنا عام ہے کہ اس کا انکار کرنا حماقت ہے۔ غلطیوں سے مراد گناہ ہیں، یعنی اسے بوسہ دینے والوں اور ہاتھ لگانے والوں کے گناہوں سے سیاہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾ (آل عمران: 3: 106) اس (قیامت کے) دن کچھ (نیک لوگوں کے) چہرے سفید ہوں گے اور کچھ (برے لوگوں کے) چہرے سیاہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2938   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 877  
´حجر اسود، رکن یمانی، اور مقام ابراہیم کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجر اسود جنت سے اترا، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کر دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 877]
اردو حاشہ:
1؎:
زیادہ طور پر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کیونکہ عقلاً و نقلاً اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے،
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے حجر اسود کی تعظیم شان میں مبالغہ اور گناہوں کی سنگینی بتانا مقصود ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 877