سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
150. بَابُ : كَمْ يَسْعَى
باب: طواف کعبہ میں کتنے پھیرے لگائے؟
حدیث نمبر: 2943
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ" يَرْمُلُ الثَّلَاثَ، وَيَمْشِي الْأَرْبَعَ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ".
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پہلے تین پھیروں میں رمل ۱؎ کرتے اور چار پھیرے عام چال چلتے، اور کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 8218)، مسند احمد (2/13) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اکڑ کر مونڈھے ہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2943  
´طواف کعبہ میں کتنے پھیرے لگائے؟`
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پہلے تین پھیروں میں رمل ۱؎ کرتے اور چار پھیرے عام چال چلتے، اور کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2943]
اردو حاشہ:
رمل سے مراد بھاگنے کے انداز میں چلنا ہے جس طرح پہلوان اکھاڑے میں فخر سے چلتا ہے۔ بازو بھاگنے کے انداز میں ہوں اور قدم قریب قریب رکھے جائیں۔ رمل کی ابتدا عمرۂ قضا میں ہوئی تھی۔ کفار مکہ نے کہا: مسلمانوں کو یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: انھیں ذرا قوت سے چل کر دکھاؤ۔ جس طرف کفار پہاڑ پر بیٹھے ہوئے تھے (شمالی جانب) اس جانب مسلمان رمل کرتے، جب اوجھل ہو جاتے، یعنی جنوبی جانب پہنچ جاتے تو آہستہ ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا ایسی بھائی کہ اسے اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرے کا جز بنا دیا، مگر صرف پہلے طواف اور تین چکروں میں تاکہ لوگوں کے لیے مشقت کا باعث نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2943   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1891  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا، اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1891]
1891. اردو حاشیہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیث میں جمع اور تطبیق یہ ہے۔ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بیان عمرۃ القضا ء کے متعلق ہے۔جو ہجرت کے ساتویں سال فتح مکہ سے قبل کیا گیا تھا۔اسوقت رمل حجر اسودسے رکن یمانی تک کیا گیا تھا۔رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان رمل نہیں کیاگیا تھا۔ جب کہ سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں جوکچھ بیان ہوا ہے۔ یہ حجۃ الوداع کاواقعہ ہے۔ لہذا یہ بعد والی حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی والی حدیث کی ناسخ ہے۔ مزید براں عمرۃ القضا اور حجۃ الوداع کے موقع پر کئے جانے والے دونوں رمل میں ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ عمرۃ القضا میں صرف مشرکین کو دکھانے اور اپنے آپ کو ان کی سوچ کے برعکس طاقتورظاہر کرنے کے لئے رمل کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت مسلمان جسمانی طور پر کمزور تھے۔ جب کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایسی کوئی بات نہیں تھی۔اس موقع پر مشرکین کوکچھ دکھانا مقصود تھا نہ نہ اپنی طاقت کا اظہار ہی بلکہ اس وقت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کااتباع کرتے ہوئے رمل کیا گیا تھا۔اس لئے حجر اسودسے لے کر حجر اسود تک یعنی پورے چکر میں رمل کیا گیا۔واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1891