سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
168. بَابُ : ذِكْرِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
باب: صفا و مروہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2970
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَائِشَةَ: فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 , قُلْتُ: مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَتْ: بِئْسَمَا قُلْتَ:" إِنَّمَا كَانَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 , فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطُفْنَا مَعَهُ، فَكَانَتْ سُنَّةً".
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آیت کریمہ: «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» پڑھی اور کہا: میں صفا و مروہ کے درمیان نہ پھروں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۱؎، تو انہوں نے کہا: تم نے کتنی بری بات کہی ہے (صحیح یہ ہے) کہ لوگ ایام جاہلیت میں صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے (بلکہ اسے گناہ سمجھتے تھے) تو جب اسلام آیا، اور قرآن اترا، اور یہ آیت «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کی، اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی کی، تو یہی سنت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 79 (1643)، العمرة10 (1790)، تفسیرالبقرة 21 (4495)، تفسیرالنجم 3 (4861) مختصراً، صحیح مسلم/الحج (1277)، سنن الترمذی/تفسیرالبقرة (2965)، (تحفة الأشراف: 16438)، موطا امام مالک/الحج 42 (129)، مسند احمد (3/144، 162، 227) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2970  
´صفا و مروہ کا بیان۔`
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آیت کریمہ: «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» پڑھی اور کہا: میں صفا و مروہ کے درمیان نہ پھروں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۱؎، تو انہوں نے کہا: تم نے کتنی بری بات کہی ہے (صحیح یہ ہے) کہ لوگ ایام جاہلیت میں صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے (بلکہ اسے گناہ سمجھتے تھے) تو جب اسلام آیا، اور قرآن اترا، اور یہ آیت «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کی، اور آپ کے ساتھ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2970]
اردو حاشہ:
(1) حضرت عروہ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا کہ سعی کو ترک کرنا بھی جائز ہے اور یہ کوئی ضروری چیز نہیں لیکن شاید وہ آیت کے سیاق وسباق اور اس کے ابتدائی الفاظ ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾ (البقرة: 2: 158) سے غافل رہے کیونکہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ شعائر ہیں تو ان سے روگردانی کیسے ممکن ہے؟ حضرت عائشہؓ جو انتہائی صاحب بصیرت خاتون تھیں اور رسول اللہﷺ سے براہ راست فیض یافتہ تھیں، اس اہم نکتے سے کیسے غافل ہو سکتی تھیں، نیز کسی بھی آیت کا مفہوم رسول اللہﷺ کے طرز عمل سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ورنہ گمراہی کا خدشہ ہے۔ جو کام رسول اللہﷺ نے تمام عمروں اور حج میں پابندی سے کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ہر عمرہ وحج میں اسے پابندی سے کیا، وہ غیر ضروری کیسے ہو سکتاہے؟ باقی رہا ﴿لَا جُنَاحَ﴾  کوئی حرج نہیں کا لفظ تو یہ دراصل ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے جو صفا اور مروہ کے طواف کو کافروں کے رسم ورواج پر محمل کرتے تھے کیونکہ ان دونوں پر انھوں نے بت رکھے ہوئے تھے لیکن کسی کی غلطی سے اصل حقیقت تو متروک نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے حکم دیا گیا کہ بتوں سے پاک کر کے ان کا طواف کیا جائے کیونکہ ان کا طواف قدیم شرعی حکم ہے۔
(2) یہ سنت ہے یہاں سنت فرض کے مقابلے میں نہیں کہ اس کا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اسی مفہوم کا تو حضرت عائشہؓ رد فرما رہی ہیں، بلکہ یہاں سنت سے مراد نبیﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ فرض، سنت، واجب وغیرہ کے موجودہ مفہوم بعد کی اصطلاحات ہیں۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ نبیﷺ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرما رہے تھے: [اسعوا فإنَّ اللَّهَ كتبَ عليْكمُ السَّعيَ ] (مسند احمد: 6/ 421) تم سعی کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سعی کو تم پر فرض کر دیا ہے۔ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے صفا مروہ کی سعی کو حج و عمرے کا رکن ٹھہرایا ہے۔ جس سے رہ جائے، وہ دوبارہ حج و عمرہ کرے، البتہ احناف اسے واجب قرار دیتے ہیں جسے قصداً تو نہیں چھوڑا جا سکتا اگر بھولے سے یا ناواقفیت سے رہ جائے، پھر قضا ممکن ہو تو قضا دے ورنہ ایک جانور قربان کرے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ سعی بین الصفا والمروہ حج کا ایسا رکن ہے کہ اگر وہ رہ جائے تو اس کی تلافی ایک دم (جانور قربان کرنے) سے نہیں ہوگی، بلکہ اسے حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فقه السنة، للسید سابق: 2/ 264- 267)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2970   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2965  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2965]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قُدید کے پاس ہے۔

2؎: (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ: 158)

3؎:
خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت اِساف نام کا تھا،
اور مروہ پر نائلہ نام کا،
اس پر اللہ نے فرمایا:
ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے،
اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا،
بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے،
ارشاد نبوی ہے (اسعَوا فَإِنَّ اللہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْی) (احمد والحاکم بسند حسن) (یعنی:
سعی کرو،
کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کر دیا ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2965