سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
168. بَابُ : ذِكْرِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
باب: صفا و مروہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2971
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 , فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالصَفَا وَالْمَرْوَةِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: بِئْسَمَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، إِنَّ هَذِهِ الْآيَةَ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا، كَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَلَكِنَّهَا نَزَلَتْ فِي الْأَنْصَارِ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا، كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَ عِنْدَ الْمُشَلَّلِ وَكَانَ مَنْ أَهَلَّ لَهَا يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَلَمَّا سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 , ثُمَّ قَدْ" سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بِهِمَا".
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ کے قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» کے متعلق پوچھا (میں نے کہا کہ اس سے تو پتا چلتا ہے کہ) کوئی صفا و مروہ کی سعی نہ کرے، تو قسم اللہ کی اس پر کوئی حرج نہیں، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! تم نے نامناسب بات کہی ہے۔ اس آیت کا مطلب اگر وہی ہوتا جو تم نے نکالا ہے تو یہ آیت اس طرح اترتی «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» اگر کوئی صفا و مروہ کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں اتری ہے۔ اسلام لانے سے پہلے وہ مشلل ۱؎ کے پاس مناۃ بت کے لیے احرام باندھتے تھے جس کی وہ عبادت کرتے تھے، اور جو مناۃ کے نام سے احرام باندھتا تھا وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے میں حرج جانتا تھا تو جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت کریمہ: «إن الصفا والمروة من شعائر اللہ فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس سے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں کوئی گناہ نہیں اتاری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کی سعی کو مسنون قرار دیا۔ تو کسی کے لیے جائز و درست نہیں کہ ان دونوں کی سعی چھوڑ دے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 79 (1643)، (تحفة الأشراف: 16471) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «مشلل» ایک بلند گھاٹی کا نام ہے جو قدید پر واقع ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2971  
´صفا و مروہ کا بیان۔`
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ کے قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» کے متعلق پوچھا (میں نے کہا کہ اس سے تو پتا چلتا ہے کہ) کوئی صفا و مروہ کی سعی نہ کرے، تو قسم اللہ کی اس پر کوئی حرج نہیں، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! تم نے نامناسب بات کہی ہے۔ اس آیت کا مطلب اگر وہی ہوتا جو تم نے نکالا ہے تو یہ آیت اس طرح اترتی «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» اگر کوئی صفا و مروہ کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‏‏‏‏ لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2971]
اردو حاشہ:
حضرت عائشہؓ کا استدلال کس قدر مضبوط ہے کہ اگر یہ طواف ضروری نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ صراحتاً بیان فرماتا کہ جو طواف نہ کرے،ا سے کوئی گناہ نہیں جبکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو طواف کرے، اسے کوئی گناہ نہیں۔ گویا کچھ لوگ ان کے طواف میں گناہ محسوس کرتے تھے۔ ان کا وہم دور کرنے کے لیے یہ آیت اتری۔ اس آیت میں اس طواف کے وجوب واستحباب کی بحث نہیں بلکہ اس کا وجوب اس آیت کے ابتدائی حصے اور رسول اللہﷺ کے طرز عمل اور فرامین سے معلوم ہوتا ہے۔ (دیکھیے، حدیث نمبر: 2970) صفا مروہ کے طواف میں گناہ محسوس کرنے والے دو گروہ تھے: ایک تو وہ جن کا ذکر اس حدیث میں ہوا ہے۔ دوسرے وہ جو جاہلیت میں صفا مروہ کا طواف کرتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد انھوں نے اسے گناہ سمجھا۔ اس آیت نے ان دونوں قسم کے گروہوں کی غلط فہمی دور کر دی۔ اب سعی کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس حدیث میں حضرت عائشہؓ کے آخری الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ امام شافعی، احمد اور دیگر محدثین رحمہم اللہ سب سعی کو رکن سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر حج و عمرہ نہیں ہوگا۔ احناف کے مسلک کی تفصیل سابقہ حدیث میں دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2971   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1901  
´صفا اور مروہ کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا: مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إن الصفا والمروة من شعائر الله» کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» کے بجائے «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ۱؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا و مروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1901]
1901. اردو حاشیہ: قرآن مجید کو محض لغت کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرنا اور احادیث صحیحہ سے اعراض کرنا بہت بڑی جہالت ہے قرآن مجید کا وہی فہم معتبر ہے۔اور اسلام کی حقیقی تعبیر وہی ہے۔جو سلف صالحین (صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین)نے کی ہے۔ شان نزول جو صحیح احادیث و اسانید سے ثابت ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا بھی از حد ضروری ہے۔جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وضاحت فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1901