سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
217. بَابُ : الْتِقَاطِ الْحَصَى
باب: کنکریاں چننے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3059
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ:" هَاتِ الْقُطْ لِي، فَلَقَطْتُ لَهُ حَصَيَاتٍ هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ فَلَمَّا وَضَعْتُهُنَّ فِي يَدِهِ، قَالَ: بِأَمْثَالِ هَؤُلَاءِ وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کی صبح مجھ سے فرمایا: اور آپ اپنی سواری پر تھے کہ میرے لیے کنکریاں چن دو۔ تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں جو چھوٹی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آ سکتی تھیں جب میں نے آپ کے ہاتھ میں انہیں رکھا تو آپ نے فرمایا: ایسی ہی ہونی چاہیئے، اور تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو ہی نے ہلاک کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحج 63 (3029)، (تحفة الأشراف: 5427)، مسند احمد (1/215)، ویأتی عند المؤلف برقم 3061 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ترمزی اور امام احمد دونوں نے یہاں ابن عباس سے عبداللہ بن عباس سمجھا ہے، حالانکہ عبداللہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ہی میں عورتوں بچوں کے ساتھ منی روانہ کر دیا تھا، اور مزدلفہ سے منی تک سواری پر آپ کے پیچھے فضل بن عباس ہی سوار تھے، یہ دونوں باتیں صحیح مسلم کتاب الحج باب ۴۵ اور ۴۹ میں اور سنن کبریٰ بیہقی (۵/۱۲۷) میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  ابن جلال دين حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 3059  
´دین میں غلوّ کرنے سے بچنا`
«. . . وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ . . .»
. . . تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ . . . [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج: 3059]

فوائد و مسائل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
«واياكم والغلو فى الدين، فانما أهلك من قبلكم الغلو فى الدين»
تم دین میں غلوّ کرنے سے بچے رہنا، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلوّ ہی نے ہلاک کر دیا تھا۔ [مسند الامام احمد: 215/1، سنن النسائي: 3059، سنن ابن ماجه: 3029، مسند ابي يعلي: 2427، المستدرك على الصحيحين للحاكم: 466/1، وسنده صحيح]
↰ اس حدیث کو امام ابن الجارود (م: 473 ھ)، امام ابن حبان (م: 3871 ھ)، امام ابن خزیمہ (م: 2867 ھ) نے صحیح اور امام حاکم نے اس کو امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت بھی کی ہے۔
↰ہر بدعت کا منشاء دین میں غلوّ ہوتا ہے۔ غلوّ سے مراد یہ ہے کہ عبادات میں شریعت كي بيان کردہ حدود و قیود اور طریقہ ہائےکار پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ ان کی ادائیگی میں خود ساختہ طریقوں کا اضافہ کر دیا جائے۔ چونکہ دین میں غلوّ ہلاکت و بربادی کا موجب ہے، لہٰذا عبادات کو بجا لانے کے سلسلے میں قرآن و سنت ہی پر اکتفا ضروری ہوتا ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 43، 44، 45، حدیث/صفحہ نمبر: 8   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3059  
´کنکریاں چننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کی صبح مجھ سے فرمایا: اور آپ اپنی سواری پر تھے کہ میرے لیے کنکریاں چن دو۔‏‏‏‏ تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں جو چھوٹی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آ سکتی تھیں جب میں نے آپ کے ہاتھ میں انہیں رکھا تو آپ نے فرمایا: ایسی ہی ہونی چاہیئے، اور تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو ہی نے ہلاک کر دیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3059]
اردو حاشہ:
(1) مکمل دنوں کی رمی کی کنکریوں کی تعداد ستر بنتی ہے۔ یہ کنکریاں کہیں سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں، البتہ یہ کہنا کہ جمرات کے پاس سے نہیں اٹھانی چاہئیں، بے دلیل موقف ہے، نیز مزدلفہ ہی سے کنکریاں اٹھانے کو مستحب قرار دینا بھی محل نظر ہے۔ (2) کنکریاں چھوٹی چھوٹی ہونی چاہئیں جو عموماً بچے نشانہ بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جن سے کوئی جانور شکار نہیں کی جا سکتا، البتہ آنکھ وغیرہ کو زخمی کر سکتی ہیں کیونکہ آنکھ نازک عضو ہے۔ رمی کے لیے چھوتی کنکریاں اس لیے ضروری ہیں اگر کسی کو لگ جائیں تو نقصان نہ ہو۔ تقریباً چنے کے دانے کے برابر ہوں۔ (3) غلو یعنی مقررہ حد سے بڑھ جانا۔ مندرجہ بالا مسئلے میں غلو یہ ہے کہ بڑے بڑے ڈھیلے مارے جائیں جس سے کوئی زخمی ہو سکتا ہے۔ (4) ہلاک کیا یعنی گمراہ کیا جو عذاب کا سبب ہے اور یہ اصل ہلاکت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3059   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3033  
´جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد وہاں نہ رکنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ عقبہ کی رمی کر لی تو چلے گئے، رکے نہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3033]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دس ذوالحجہ کو صرف بڑے جمرے کو رمی کی جاتی ہے۔
اور یہ رمی صبح کے وقت سورج نکلنے کے بعد ہوتی ہے۔

(2)
گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات کو سور ج ڈھلنے کے بعد کی جاتی ہے۔

(3)
تینوں جمرات کو رمی کرتے وقت پہلے چھوٹے جمرے کو پھر درمیان والے کو اور پھر بڑے جمرے کو رمی کی جاتی ہے۔

(4)
چھوٹے اور درمیانی جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کر کے دعا کرنی چاہیے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جمرہ دنیا (چھوٹے جمرے)
کو سات کنکریا ں مارتے تھے ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے پھر آگے بڑھ کر (ہموار)
میدان میں چلے جاتے اور قبلے کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دیر تک کھڑے رہ دعا کرتے اور ہاتھ اٹھائے رکھتے۔
پھر درمیانی جمرے کو رمی کرتے پھر بائیں طرف ہو کر میدان میں چلے جاتے اور قبلہ رخ ہو کر دیر تک کھڑے ہوکر دعا کرتے اور ہاتھ اٹھا کر دیر تک کھڑے رہتے۔
پھر عقبہ والے جمرے کو وادی کے نشیبی حصے میں کھڑے ہوکر رمی کرتے اور اس کے پاس نہ ٹھرتے اور فرماتے تھے۔
میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب إذا رمي الجمرتين يقوم مستقبل القبلة و يسهل، حديث: 1751)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3033   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 899  
´جمرات کی رمی پیدل اور سوار ہو کر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ کی رمی سواری پر کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 899]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سابقہ جابر کی حدیث نمبر886 سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 899   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1920  
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے، آپ پر اطمینان اور سکینت طاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف اسامہ رضی اللہ عنہ تھے، آپ نے فرمایا: لوگو! اطمینان و سکینت کو لازم پکڑو اس لیے کہ گھوڑوں اور اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے انہیں (گھوڑوں اور اونٹوں کو) ہاتھ اٹھائے دوڑتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمع (مزدلفہ) آئے، (وہب کی روایت میں اتنا زیادہ ہے): پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو بٹھایا اور فرمایا: لوگو! گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانا نیکی نہیں ہے تم اطمینان اور سکینت کو لازم پکڑو۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر میں نے کسی اونٹ اور گھوڑے کو اپنے ہاتھ اٹھائے (دوڑتے) نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ آئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1920]
1920. اردو حاشیہ: نیکی اور خیر کے کاموں میں مسارعت ومسابقت بلاشبہ مطلوب ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے <قرآن>۔(وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ)(آل عمران۔133) اورفرمایا <قرآن> (فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ)(البقرۃ۔148) مگراس کے یہ معنی نہیں کہ کام کو جلدی جلدی انجام دیں۔بلکہ ایسی صورت سے انجام دیں جو اسلامی وقار اور اسلامی شرف کے منافی اوردوسروں کے لئے اذیت کاباعث نہ ہو۔نمازکے لئے آنے کا بھی یہی ادب بتایا گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1920