صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
23. بَابُ الآبَارِ عَلَى الطُّرُقِ إِذَا لَمْ يُتَأَذَّ بِهَا:
باب: راستوں میں کنواں بنانا جب کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔
حدیث نمبر: 2466
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَا رَجُلٌ بِطَرِيقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ مَاءً فَسَقَى الْكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّه، وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا، فَقَالَ: فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ کیا جانوروں کے سلسلہ میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2550  
´جانوروں اور چوپایوں کی خدمت اور خبرگیری کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کسی راستہ پہ جا رہا تھا کہ اسی دوران اسے سخت پیاس لگی، (راستے میں) ایک کنواں ملا اس میں اتر کر اس نے پانی پیا، پھر باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس شخص نے دل میں کہا: اس کتے کا پیاس سے وہی حال ہے جو میرا حال تھا، چنانچہ وہ (پھر) کنویں میں اترا اور اپنے موزوں کو پانی سے بھرا، پھر منہ میں دبا کر اوپر چڑھا اور (کنویں سے نکل کر باہر آ کر) کتے کو پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول فرما۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2550]
فوائد ومسائل:

لوگوں کے لئے سرائوں اور ان کے راستوں میں پانی کا انتظام کرنا بہت بڑی نیکی کا کام ہے۔


انسان مسلمان ہو یا کافر اس کے ساتھ اور ایسے ہی جاندار مخلوق کے ساتھ احسان کرنا۔
بڑے اجر کی بات ہے۔
البتہ واجب القتل اور موذی جانور اس احسان سے مستثنیٰ ہیں۔
جیسے کہ خنزیر، سانپ، بچھو وغیرہ۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2550   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2466  
2466. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا ہوا کہ ایک شخص راستے میں جا رہاتھا کہ اسے سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر پڑا اور اپنی پیاس بجھائی۔ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے خیال کیا کہ اسے بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اترااور اپنا موزہ پانی سے بھرا، پھر وہ کتے کو پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر زندہ جگر کی خدمت میں اجرو ثواب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2466]
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا کہ راستے میں کنواں کھود سکتے ہیں۔
تاکہ آنے جانے والے اس میں سے پانی پئیں اور آرام اٹھائیں بشرطیکہ ضرر کا خوف نہ ہو، ورنہ کھودنے والا ضامن ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، کافر ہو یا مسلمان سب کو پانی پلانا بہت بڑا کار ثواب ہے۔
حتی کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2466   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2466  
2466. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا ہوا کہ ایک شخص راستے میں جا رہاتھا کہ اسے سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر پڑا اور اپنی پیاس بجھائی۔ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے خیال کیا کہ اسے بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اترااور اپنا موزہ پانی سے بھرا، پھر وہ کتے کو پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر زندہ جگر کی خدمت میں اجرو ثواب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2466]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کا مقصد یہ نہیں کہ عین راستے کے درمیان میں کنواں کھود دیں بلکہ راستے میں اس کے دائیں بائیں ہو۔
اس وقت خدمتِ خلق کے لیے کچے کنویں راستوں کے کناروں پر بنائے جاتے تھے۔
ان میں اترنے کے لیے سیڑھیاں بھی ہوتی تھیں۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ راستے میں کنواں بنایا جا سکتا ہے تاکہ آنے جانے والے مسافر اس سے پانی پئیں اور اپنی پیاس بجھائیں بشرطیکہ کسی کے لیے نقصان یا تکلیف کا باعث نہ ہو۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، مسلمان ہو یا کافر پانی پلانے کا اہتمام کرنا بہت ثواب کا کام ہے حتیٰ کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ اگر وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2466