سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
223. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ لِلنِّسَاءِ
باب: عورتوں کو سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں مارنے کی رخصت ہے۔
حدیث نمبر: 3068
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، عَنْ خَالَتِهَا عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَ إِحْدَى نِسَائِهِ أَنْ تَنْفِرَ مِنْ جَمْعٍ لَيْلَةَ جَمْعٍ، فَتَأْتِيَ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَتَرْمِيَهَا، وَتُصْبِحَ فِي مَنْزِلِهَا" , وَكَانَ عَطَاءٌ يَفْعَلُهُ حَتَّى مَاتَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو حکم دیا کہ وہ مزدلفہ کی رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کر جائیں، اور جمرہ عقبہ کے پاس آ کر اس کی رمی کر لیں، اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر صبح کریں۔ اور عطا اپنی وفات تک ایسے ہی کرتے رہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17877) (ضعیف الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3068  
´عورتوں کو سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں مارنے کی رخصت ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو حکم دیا کہ وہ مزدلفہ کی رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کر جائیں، اور جمرہ عقبہ کے پاس آ کر اس کی رمی کر لیں، اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر صبح کریں۔ اور عطا اپنی وفات تک ایسے ہی کرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3068]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ مختلف روایات میں تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ بہت سی روایات میں صراحتاً حکم ہے کہ طلوع شمس سے قبل رمی نہ کی جائے اس روایت میں آپ نے اجازت دی ہے۔ گویا عورتوں کو طلوع شمس سے قبل رمی کی اجازت ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ بعض نے صرف آپ کی زوجہ محترمہ کے لیے خصوصی اجازت کا قول ذکر کیا ہے۔ جو علماء طلوع شمس سے قبل بھی رمی کے قائل ہیں ان کی مضبوط ترین ایک دلیل حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی ہے، جس میں ان کے چاند غروب ہونے کے بعد جلد نکلنے کا ذکر ہے۔ نماز فجر سے قبل انھوں نے رمی کی اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1679) لیکن بعض محققین کے نزدیک یہ دلیل محل نظر ہے کیونکہ یہ عمل ان کی ذاتی رائے یا اجتہاد کے پیش نظر تھا۔ حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ رمی بھی رسول اللہﷺ کی اجازت ہی سے کی گئی تھی، لہٰذا رسول اللہﷺ کا طلوع شمس سے قبل ہر کسی کو رمی کرنے سے روکنا، پھر یہ کہ آپ کا عمل بھی یہی تھا کہ آپ نے رمی طلوع شمس کے بعد ہی کی، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رمی طلوع شمس کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک بجائے ترجیح کے تطبیق زیادہ مناسب ہے۔ ان کے نزدیک طلوع شمس کے بعد رمی، مستحب اور اس سے قبل جائز ہے۔ وہ حدیث میں وارد نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: 3/ 528، 529، وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 26/ 41-45)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3068   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 621  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے واپس آ جائیں (یہ اجازت انہوں نے اس لئے طلب کی) کہ بھاری جسم والی تھیں۔ (اس وجہ سے آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلتی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 621]
621 فائدہ:
بیماری اور جسمانی کمزوری کے علاوہ بھاری بھر کم جسم بھی معذوری میں شامل ہے۔ ایسے حاجی کو بھی مزدلفہ میں پوری رات گزارے بغیر منیٰ کی طرف جانے کی رخصت و اجازت ہے۔

وضاحت: حضرت سودہ بنت زمعہ بن عبد شمس قرشیہ عامریہ رضی اللہ عنہا، امہات المؤمنین میں سے ہیں۔ مکہ مکرمہ ہی میں ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا اور اپنے خاوند کے ساتھ دوسری ہجرت میں شریک ہوئیں۔ ان کا خاوند وہاں فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے پہلے مکہ میں ان کے ساتھ وظیفہء زوجیت ادا کیا اور 55 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 621