سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
226. بَابُ : الْمَكَانِ الَّذِي تُرْمَى مِنْهُ جَمْرَةُ الْعَقَبَةِ
باب: جمرہ عقبہ کی رمی کہاں سے کی جائے؟
حدیث نمبر: 3072
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُحَيَّاةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ، قَالَ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِنَّ نَاسًا يَرْمُونَ الْجَمْرَةَ مِنْ فَوْقِ الْعَقَبَةِ، قَالَ: فَرَمَى عَبْدُ اللَّهِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ قَالَ:" مِنْ هَا هُنَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ رَمَى الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ".
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ جمرہ کو گھاٹی کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں، تو عبداللہ بن مسعود نے وادی کے نیچے سے کنکریاں ماریں، پھر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اسی جگہ سے اس شخص نے کنکریاں ماریں جس پر سورۃ البقرہ نازل ہوئی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 350 (1747)، 36 (1748)، 37 (1749)، 38 (1750)، صحیح مسلم/الحج 50 (1296)، سنن ابی داود/الحج 78 (1974)، سنن الترمذی/الحج 64 (901)، سنن ابن ماجہ/الحج 64 (3030)، (تحفة الأشراف: 9382)، مسند احمد (1/415، 427، 430، 432، 436، 456، 457، 458) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3072  
´جمرہ عقبہ کی رمی کہاں سے کی جائے؟`
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ جمرہ کو گھاٹی کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں، تو عبداللہ بن مسعود نے وادی کے نیچے سے کنکریاں ماریں، پھر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اسی جگہ سے اس شخص نے کنکریاں ماریں جس پر سورۃ البقرہ نازل ہوئی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3072]
اردو حاشہ:
(1) رمی کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں طرف بیت اللہ ہو اور دائیں طرف منیٰ اور منہ جمرے کی طرف ہو۔ اس طرح رمی کرنے والا نشیب میں کھڑا ہوگا۔ یہ مستحب ہے مگر رش کی صورت میں چونکہ سب لوگ اس طرح رمی نہیں کر سکتے، لہٰذا جس طرف سے بھی رمی ہو جائے کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا، البتہ جس طرح آپ نے کی، وہ مستحب ہے۔
(2) اس شخصیت نے مراد رسول اللہﷺ ہیں۔ سورہ بقرہ کا خصوصی ذکر اس لیے کیا کہ اس میں حج کے کافی مسائل ہیں۔
(3) بات کو موکد کرنے کے لیے مطالبے کے بغیر بھی قسم کھانا جائز ہے۔
(4) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ کا ہر عمل کما حقہ محفوظ کیا۔ اور وہ بحمد للہ، ہو بہو اسی شکل میں ہم تک پہنچا جس طرح انھوں نے پہنچایا… رضي اللہ عنهم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3072   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3030  
´جمرہ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں ماری جائیں؟`
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے نچلے حصے میں گئے، کعبہ کی طرف رخ کیا، اور جمرہ عقبہ کو اپنے دائیں ابرو پر کیا، پھر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے جاتے تھے پھر کہا: قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہیں سے اس ذات نے کنکری ماری ہے جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3030]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ابرو کے مقابل رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تھوڑا سا ہٹ کر کھڑے ہوئے۔

(2)
  رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک مارنی چاہییں۔

(3)
ہر کنکری مارتے وقت الله اكبر کہنا چاہیے۔

(4)
اس حدیث میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف رکھا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب من رمي جمرة العقبة فجعل البيت عن يساره، حديث: 1749)
حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہےلیکن یہ بھی فرمایا ہے:
اس بات پر اجماع ہے کہ جہاں بھی کھڑے ہوکر رمی کرے جائز ہےخواہ اس کی طرف منہ کرے یا اسے دائیں بائیں رکھے۔
اس کی اوپر کی سمت سے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے (فتح الباري3/ 734)

(5)
سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس میں حج کے بہت سے مسائل مذکور ہیں، مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام کا مطلب رسول اللہ ﷺ بہتر طور پر سمجھتے تھے اس لیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عمل کیا ہےہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3030   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 627  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب اور منٰی کو اپنی دائیں جانب رکھا اور جمرہ کو سات سنگریزے مارے اور فرمایا کہ یہ ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورۃ «البقره» کا نزول ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 627]
627 لغوی تشریح:
«رمى الجمرة» اس جمرہ سے جمرۃ العقبہ مراد ہے۔
«انزلت عليه سورة البقرة» سورہ بقرہ کا بالخصوص ذکر اس لیے کیا کہ حج کے اکثر احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ گویا اس سے اس پر متنبہ اور خبردار کرنا مقصود ہے کہ حج کے اعمال توفیقی ہیں۔ ان میں رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 627   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1974  
´رمی جمرات کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1974]
1974. اردو حاشیہ: اور یہ وہی منظر ہے جس کا ذکر دیگر احادیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے وادی کے دامن میں سے کنکریاں ماریں(صحیح البخاری الحج حدیث:1750]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1974