سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
228. بَابُ : التَّكْبِيرِ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ
باب: ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3081
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَخِيهِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ".
عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل بن عباس (رضی الله عنہم) سے روایت کرتے ہیں، فضل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا آپ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ آپ اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11054)، مسند احمد (1/212) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3081  
´ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل بن عباس (رضی الله عنہم) سے روایت کرتے ہیں، فضل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا آپ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ آپ اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3081]
اردو حاشہ:
جب قول وفعل دونوں مل جائیں تو اثر انگیزی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، اس لیے شریعت نے تقریباً تمام عبادات میں فعل کے ساتھ ساتھ قول کو بھی لازم رکھا ہے۔ حج میں بھی احرام کے ساتھ لبیک کہنا، طواف میں ذکر و دعا کرنا، رمی کے ساتھ تکبیرات کہنا وغیرہ اسی اصول کی بنا پر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3081   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 918  
´حج میں تلبیہ پکارنا کب بند کیا جائے؟`
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر لے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 918]
اردو حاشہ:
1؎:
ان لوگوں کا استدلال ((حَتَّى يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ)) سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کر لینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے،
لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کر دینا چاہئے،
ان کی دلیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت ہے جس میں ((لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى بَلَغَ الْجَمْرَةَ)) کے الفاظ وارد ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 918   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1815  
´لبیک پکارنا کب بند کرے؟`
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پکارا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1815]
1815. اردو حاشیہ: تلبیہ احرام باندھنے کے وقت سے شروع ہو کر دسویں تاریخ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک ہی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایت میں ہے: آپﷺ تلبیہ کہتے رہے حتی کہ جمرہ کے پاس پہنچ گئے۔ (صحیح البخاری الحج حدیث:1543 1544 و صحیح مسلم الحج حدیث:1281]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1815