صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
25. بَابُ الْغُرْفَةِ وَالْعُلِّيَّةِ الْمُشْرِفَةِ وَغَيْرِ الْمُشْرِفَةِ فِي السُّطُوحِ وَغَيْرِهَا:
باب: اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا۔
وَقَالَ هَمَّامٌ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" يُمِيطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ".
اور ہمام نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے بیان کیا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔
حدیث نمبر: 2467
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟ إِنِّي أَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا، ان سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔ پھر فرمایا، کیا تم لوگ بھی دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں کہ (عنقریب) تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے جیسے بارش برستی ہے۔
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7060  
´فتنے بارش کے قطروں کی طرح`
«. . . أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي لَأَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقْعِ الْقَطْرِ . . .»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ: 7060]

فوائد و مسائل
اس حدیث نبوی اور مشرق کی طرف سے اٹھنے والے فتنہ کی احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں:
«وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.»
اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ [فتح الباري: 13/13]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 18   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2467  
2467. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھے اس پر اس سےجھانکا تو فرمایا: کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم دیکھتے ہو؟تمھارے گھروں پر فتنے برس رہے ہیں جس طرح بارش برستی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2467]
حدیث حاشیہ:
نبی کریم ﷺ مدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے اسی سے ترجمہ باب نکلا بشرطیکہ محلے والوں کی بے پردگی نہ ہو۔
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ مدینہ میں بڑے بڑے فتنے اور فساد ہونے والے ہیں۔
جو بعد کے آنے والے زمانوں میں خصوصا عہد یزید میں رونما ہوئے کہ مدینہ خراب اور برباد ہوا۔
مدینہ کے بہت لوگ مارے گئے، کئی دنوں تک حرم نبوی میں نماز بند رہی۔
پھر اللہ کا فضل ہوا کہ وہ دور ختم ہوا۔
خاص طو رپر آج کل عہد سعودی میں مدینہ منورہ امن و امان کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔
ہر ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں۔
مدینہ تجارت اور روزگاروں کی منڈی بنتا جارہا ہے۔
اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے، آمین۔
اور مدینہ منورہ کو مزید در مزید ترقی اور رونق عطا کرے۔
راقم الحروف نے اپنی عمر عزیز کے آخر حصہ1390ھ میں مدینہ شریف کو جس ترقی اور رونق پرپایا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔
اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کا یہ شہر ایک دفعہ اور دکھلائے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2467  
2467. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھے اس پر اس سےجھانکا تو فرمایا: کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم دیکھتے ہو؟تمھارے گھروں پر فتنے برس رہے ہیں جس طرح بارش برستی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2467]
حدیث حاشیہ:
اس عنوان سے مقصود بالا خانے بنانے کا جواز ثابت کرنا ہے۔
بعض لوگ اسے مکروہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے پڑوسیوں کے احوال و عیوب پر اطلاع ہوتی ہے۔
لیکن اس کا جواز مشروط ہے کہ پڑوسیوں اور گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔
امام بخاری ؒ نے اس سے جواز ثابت کیا ہے بشرطیکہ کسی پردہ دار پر نظر نہ پڑے اور نہ ان کی بے پردگی ہی ہو۔
اگر دوسروں کے مکان میں جھانکنے کی گنجائش ہو یا اڑوس پڑوس والے تکلیف محسوس کریں تو بالاخانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2467