سنن نسائي
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
1. بَابُ : وُجُوبِ الْجِهَادِ
باب: جہاد کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3089
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْمَرًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: عَنْ سَعِيدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع وَاللَّفْظُ لأَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي" , قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا،
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جامع کلمات ۱؎ دے کر بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب ۲؎ سے کی گئی ہے۔ اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئیں، اور میرے ہاتھوں میں تھما دی گئیں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دنیا سے) رخصت ہو گئے لیکن تم ان خزانوں کو نکال کر خرچ کر رہے ہو ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد (523)، (تحفة الأشراف: 13281، 13342)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 122 (2977)، والتعبیر 11 (6998)، 22 (7013)، والاعتصام1 (7273)، مسند احمد (2/268) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «جامع کلمات» یعنی قرآن و حدیث جن کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی بہت، «جوامع الکلم» میں صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہے، اس سے مراد «الکلم الجامعۃ» ہے۔ ۲؎: یعنی ایسے دبدبہ و دھاک سے کی گئی ہے جس سے بلا کسی عادی سبب کے دشمنوں کے دلوں میں خوف طاری ہو جاتا ہے۔ ۳؎: خزانوں سے مراد روم و ایران اور مصر و شام وغیرہ کی فتوحات اور وہاں کی دولت پر مسلمانوں کا تصرف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3089  
´جہاد کی فرضیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جامع کلمات ۱؎ دے کر بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب ۲؎ سے کی گئی ہے۔ اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئیں، اور میرے ہاتھوں میں تھما دی گئیں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دنیا سے) رخصت ہو گئے لیکن تم ان خزانوں کو نکال کر خرچ کر رہے ہو ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3089]
اردو حاشہ:
(1) جامع کلمات یعنی الفاظ کم ہوں مگر معانی زیادہ ہوں، جیسے ] أِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ [ (صحیح البخاري‘ بد، الوحي‘ حدیث:1)
(2) رعب دے کر یعینی مخالفین کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ہے۔ وہ آپ کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔ صرف اپنی عزت رکھنے کے لیے حملے کرتے تھے یا اپنی جان بچانے کے لیے، مگر دلجمعی سے لڑتے تھے۔ نتیجتاً شکست کھاتے تھے۔
(3) چابیوں کو ہاتھ میں رکھنا اشارہ ہے ان فتوحات کی طرف جو مستقبل قریب میں ہوئیں اور ان سے مسلمانوں کو حیران کن خزانے ملے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ بھی اسی طرف ہے۔ چونکہ یہ فتوحات جہاد کے ذر یعے سے ہوئیں، لہٰذا اس روایت کو جہاد کے باب میں لانا مناسب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3089   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث567  
´تیمم کے مشروع ہونے کا سبب۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 567]
اردو حاشہ:
(1)
  زمین میں مسجد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں مسجد سے باہر بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، سوائے ممنوعہ مقامات یا ناپاک جگہ کے مثلاً عین راستے پر، قبرستان میں اور بعض دیگر مقامات جن کی تفصیل حدیث: 746، 745، اور 747 میں مذکور ہے۔
لیکن فرض نمازمیں کسی عذر کے بغیر جاعت سے پیچھے رہنا جائز نہیں۔

(2)
زمین پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ عذر کے موقع پر وضو اور غسل کے بجائے تیمم سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 567