صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
25. بَابُ الْغُرْفَةِ وَالْعُلِّيَّةِ الْمُشْرِفَةِ وَغَيْرِ الْمُشْرِفَةِ فِي السُّطُوحِ وَغَيْرِهَا:
باب: اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا۔
حدیث نمبر: 2468
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ، قَالَ اللَّهُ لَهُمَا: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4 فَحَجَجْتُ مَعَه، فَعَدَلَ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ حَتَّى جَاءَ، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ مِنَ الْإِدَاوَةِ، فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4، فَقَالَ: وَا عَجَبِي لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ: عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ، فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْأَمْرِ وَغَيْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الْأَنْصَارِ إِذَا هُمْ قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ، فَصِحْتُ عَلَى امْرَأَتِي فَرَاجَعَتْنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ليُرَاجِعْنَهُ، وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ، فَأَفْزَعَنِي، فَقُلْتُ: خَابَتْ مَنْ فَعَلَ مِنْهُنَّ بِعَظِيمٍ، ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَيْ حَفْصَةُ أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ، فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: خَابَتْ وَخَسِرَتْ، أَفَتَأْمَنُ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِينَ، لَا تَسْتَكْثِرِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْءٍ، وَلَا تَهْجُرِيهِ وَاسْأَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكَ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ، وَكُنَّا تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ النِّعَالَ لِغَزْوِنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَرَجَعَ عِشَاءً، فَضَرَبَ بابِي ضَرْبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَنَائِمٌ هُوَ، فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، وَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: مَا هُوَ، أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ أَعْظَمُ مِنْهُ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، قَالَ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ هَذَا يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ فَجَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، فَصَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِيهَا، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي، قُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ، أَوَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: لَا أَدْرِي، هُوَ ذَا فِي الْمَشْرُبَةِ، فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ الْمِنْبَرَ، فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي هُوَ فِيهَا، فَقُلْتُ لِغُلَامٍ لَهُ أَسْوَدَ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: ذَكَرْتُكَ لَهُ، فَصَمَتَ، فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، قَالَ: أَذِنَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ، قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ: طَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَيَّ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ رَأَيْتَنِي وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى قَوْمٍ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَذَكَرَهُ، فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قُلْتُ: لَوْ رَأَيْتَنِي وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ، ثُمَّ رَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ، فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلَاثَةٍ، فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ، فَإِنَّ فَارِسَ، وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَدِيثِ حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ، وَكَانَ قَدْ قَالَ: مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَاتَبَهُ اللَّهُ، فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّا أَصْبَحْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ وَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّخْيِيرِ، فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ، فَقَالَ: إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، وَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: قَدْ أَعْلَمُ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِكَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29، قُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ، فَقُلْنَ: مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التحریم میں) فرمایا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما‏» اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو (تو بہتر ہے) کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں۔ پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ راستے سے قضائے حاجت کے لیے ہٹے تو میں بھی ان کے ساتھ (پانی کا ایک) چھاگل لے کر گیا۔ پھر وہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا۔ اور انہوں نے وضو کیا، پھر میں نے پوچھا، یا امیرالمؤمنین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ «إن تتوبا إلى الله‏» تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو انہوں نے فرمایا، ابن عباس! تم پر حیرت ہے۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہو کر پورا واقعہ بیان کرنے لگے۔ آپ نے بتلایا کہ بنوامیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتا۔ (اور ان کو سناتا) اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے۔ ہم قریش کے لوگ (مکہ میں) اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ لیکن جب ہم (ہجرت کر کے) انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے۔ قسم اللہ کی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رہتی ہیں۔ اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہو گا وہ بہت بڑے نقصان اور خسارے میں ہے۔ اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور حفصہ رضی اللہ عنہا (عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ام المؤمنین) کے پاس پہنچا اور کہا اے حفصہ! کیا تم میں سے کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پورے دن رات تک ناراض رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں! میں بول اٹھا کہ پھر تو وہ تباہی اور نقصان میں رہیں۔ کیا تمہیں اس سے امن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی وجہ سے (تم پر) غصہ ہو جائے اور تم ہلاک ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ ہرگز نہ کیا کرو، نہ کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب دو اور نہ آپ پر خفگی کا اظہار ہونے دو، البتہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو، وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، کسی خود فریبی میں مبتلا نہ رہنا، تمہاری یہ پڑوسن تم سے زیادہ جمیل اور نظیف ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پیاری بھی ہیں۔ آپ کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ان دنوں یہ چرچا ہو رہا تھا کہ غسان کے فوجی ہم سے لڑنے کے لیے گھوڑوں کو سم لگا رہے ہیں۔ میرے پڑوسی ایک دن اپنی باری پر مدینہ گئے ہوئے تھے۔ پھر عشاء کے وقت واپس لوٹے۔ آ کر میرا دروازہ انہوں نے بڑی زور سے کھٹکھٹایا، اور کہا کیا آپ سو گئے ہیں؟ میں بہت گھبرایا ہوا باہر آیا انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کیا غسان کا لشکر آ گیا؟ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی بڑا اور سنگین حادثہ، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، حفصہ تو تباہ و برباد ہو گئی۔ مجھے تو پہلے ہی کھٹکا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے (عمر رضی اللہ عنہ نے کہا) پھر میں نے کپڑے پہنے۔ صبح کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی (نماز پڑھتے ہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف لے گئے اور وہیں تنہائی اختیار کر لی۔ میں حفصہ کے یہاں گیا، دیکھا تو وہ رو رہی تھیں، میں نے کہا، رو کیوں رہی ہو؟ کیا پہلے ہی میں نے تمہیں نہیں کہہ دیا تھا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانہ میں تشریف رکھتے ہیں۔ پھر میں باہر نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ وہاں کچھ لوگ موجود تھے اور بعض رو بھی رہے تھے۔ تھوڑی دیر تو میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ لیکن مجھ پر رنج کا غلبہ ہوا، اور میں بالاخانے کے پاس پہنچا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سیاہ غلام سے کہا، (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو) کہ عمر اجازت چاہتا ہے۔ وہ غلام اندر گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر کے واپس آیا اور کہا کہ میں نے آپ کی بات پہنچا دی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، چنانچہ میں واپس آ کر انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔ پھر مجھ پر رنج غالب آیا اور میں دوبارہ آیا۔ لیکن اس دفعہ بھی وہی ہوا۔ پھر آ کر انہیں لوگوں میں بیٹھ گیا جو منبر کے پاس تھے۔ لیکن اس مرتبہ پھر مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے غلام سے آ کر کہا، کہ عمر کے لیے اجازت چاہو۔ لیکن بات جوں کی توں رہی۔ جب میں واپس ہو رہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جس پر کوئی بستر بھی نہیں تھا۔ اس لیے چٹائی کے ابھرے ہوئے حصوں کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں پڑ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ایسے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جس کے اندر کھجور کی چھال بھری گئی تھی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کی، کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ میری طرف کر کے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے آپ کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی اور کہنے لگا .... اب بھی میں کھڑا ہی تھا .... یا رسول اللہ! آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قریش کے لوگ اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے، لیکن جب ہم ایک ایسی قوم میں آ گئے جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل ذکر کی۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے۔ پھر میں نے کہا میں حفصہ کے یہاں بھی گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ کہیں کسی خود فریبی میں نہ مبتلا رہنا۔ یہ تمہاری پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور پاک ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب بھی ہیں۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرا دیئے۔ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا، تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بیٹھ گیا۔ اور آپ کے گھر میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ بخدا! سوائے تین کھالوں کے اور کوئی چیز وہاں نظر نہ آئی۔ میں نے کہا۔ یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی عطا فرما دے۔ فارس اور روم کے لوگ تو پوری فراخی کے ساتھ رہتے ہیں۔ دنیا انہیں خوب ملی ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے خطاب کے بیٹے! کیا تمہیں ابھی کچھ شبہ ہے؟ (تو دنیا کی دولت کو اچھی سمجھتا ہے) یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ ان کے اچھے اعمال (جو وہ معاملات کی حد تک کرتے ہیں ان کی جزا) اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ہے۔ (یہ سن کر) میں بول اٹھا۔ یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجئے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی ازواج سے) اس بات پر علیحدگی اختیار کر لی تھی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حفصہ رضی اللہ عنہ نے پوشیدہ بات کہہ دی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انتہائی خفگی کی وجہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تھی، فرمایا تھا کہ میں اب ان کے پاس ایک مہینے تک نہیں جاؤں گا۔ اور یہی موقعہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ کیا تھا۔ پھر جب انتیس دن گزر گئے تو آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ نے تو عہد کیا تھا کہ ہمارے یہاں ایک مہینے تک نہیں تشریف لائیں گے۔ اور آج ابھی انتیسویں کی صبح ہے۔ میں تو دن گن رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ مہینہ انتیس دن کا ہے اور وہ مہینہ انتیس ہی دن کا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جس میں (ازواج النبی کو) اختیار دیا گیا تھا۔ اس کی بھی ابتداء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ ہی سے کی اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اور یہ ضروری نہیں کہ جواب فوراً دو، بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کر لو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ میرے ماں باپ کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو اللہ تعالیٰ کے قول عظیما تک۔ میں نے عرض کیا کیا اب اس معاملے میں بھی میں اپنے والدین سے مشورہ کرنے جاؤں گی! اس میں تو کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیویوں کو بھی اختیار دیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3318  
´سورۃ التحریم سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما» اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں (التحریم: ۴)، (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی الله عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3318]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں،
(التحریم: 4)

2؎:
مطلب یہ ہے اگر اس حرکت پر نبیﷺعائشہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں تو تم بھی اس بھرے میں مت آؤ،
وہ تو تم سے زیادہ حسن وجمال کی مالک ہیں،
ان کا کیا کہنا!۔

3؎:
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگیاں چاہئے،
تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں،
اورخوش اسلوبی سے تم کو رخصت کر دوں،
اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اور آخرت کی بھلائی چاہیں تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے،
(الأحزاب: 28، 29)

نوٹ:
(سند میں بظاہر انقطاع ہے،
اس لیے کہ ایوب بن ابی تمیمہ کیسانی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا،
اور امام مسلم نے اس ٹکڑے کو مستقلاً نہیں ذکر کیا،
بلکہ یہ ابن عباس کی حدیث کے تابع ہے،
اور ترمذی نے ابن عباس کی حدیث کی تصحیح کی ہے،
لیکن اس فقرے کا ایک شاہد مسند احمد میں (3 /328) میں بسند ابوالزبیر عن جابرمرفوعاً ہے،
جس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے،
اس لیے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے،
الصحیحة: 1516)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3318   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2468  
2468. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میری یہ خواہش رہی کہ میں حضرت عمر ؓ سے دریافت کروں کہ نبی ﷺ کی بیویوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ اور رجوع کرو (تو بہترہے) پس تمھارے دل (حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔ واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کے ہمراہ حج کو گیا تو وہ (قضائے حاجت کے لیے) راستے سے ایک طرف ہٹے۔ میں بھی پانی کا مشکیزہ لیے ان کے ہمراہ ہو گیا، چنانچہ جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر مشکیزے سےپانی ڈالا۔ انھوں نے وضوکیاتو میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین میں سے وہ کون سی دو عورتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر تم تو بہ کرو(تو تمھارے لیے بہتر ہے) پس تمھارے دل(حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔ حضرت عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2468]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا اللہ کے رسول ﷺ کو غصہ دلانا اور ناراض کرنا اللہ کو غضب دلانا اور ناراض کرنا ہے۔
آنحضرت ﷺ جب دنیا میں تشریف رکھتے تھے تو ایک بار حضرت عمر ؓ تورات پڑھنے اور سنانے لگے، آپ ﷺ کا مبارک چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
دوسرے صحابہ نے حضرت عمر ؓ کو ملامت کی کہ آنحضرت ﷺ کا چہرہ نہیں دیکھتے۔
اس وقت انہوں نے تورات پڑھنا موقوف کیا۔
اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر موسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری تابعداری کرنی ہوتی۔
اس حدیث سے ان لوگوں کو نصیحت لینی چاہئے جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر حدیث شریف سن کر دوسرے مولوی یا امام یا درویش کی بات پر عمل کرتے ہیں اور حدیث شریف پر عمل نہیں کرتے۔
خیال کرنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک کو ایسی باتوں سے کتنا صدمہ ہوتا ہوگا اور جب آنحضرت ﷺ بھی ناراض ہوئے تو کہاں ٹھکانا رہا۔
اللہ جل و جلالہ بھی ناراض ہوا۔
ایسی حالت میں نہ کوئی مولوی کام آئے گا نہ پیر نہ دوریش نہ امام۔
اللہ! تو اس بات کا گواہ ہے کہ ہم کو اپنے پیغمبر سے ایسی محبت ہے کہ باپ داداد، پیر مرشد، بزرگ امام مجتہد ساری دنیا کا قول اور فعل حدیث کے خلاف ہم لغو سمجھتے ہیں اور تیری اور تیرے پیغمبر ﷺ کی رضا مندی ہم کو کافی وافی ہے۔
اگر یہ سب تیری اور تیرے پیغمبر ﷺ کی تابعداری میں بالفرض ہم سے ناراض ہو جائیں تو ہم کو ان کی ناراضی کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔
یا اللہ! ہماری جان بدن سے نکلتے ہی ہم کو ہمارے پیغمبر کے پا س پہنچا دے۔
ہم عالم برزخ میں آپ ہی کی کفش برداری کرتے رہیں اور آپ ہی کی حدیث سنتے رہیں۔
(وحیدی)
حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایمان افروز تقریر ان محترم حضرات کو بغور مطالعہ کرنی چاہئے جو آیات قرانی واحادیث صحیحہ کے سامنے اپنے اماموں، مرشدوں کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ بہت سے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کو آیات و احادیث سے غرض نہیں۔
ہمارے لیے ہمارے امام کا فتوی کافی وافی ہے۔
ایسے نادان مقلدین نے حضرات ائمہ کرام و مجتہدین عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی ارواح طیبہ کو سخت ایذا پہنچائی ہے۔
ان بزرگوں کی ہرگز یہ ہدایت نہ تھی کہ ان کو مقام رسالت کا مد مقابل بنا دیا جائے۔
وہ بزرگان معصوم نہ تھے۔
امام تھے، مجتہد تھے، قابل صد احترام تھے مگر وہ رسول نہ تھے۔
نہ نبی تھے اور حضرت محمد ﷺ کے مدمقابل نہ تھے۔
غالی مقلدین نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے قیامت کے دن یقینا ان کو اس کی جواب دہی کرنی ہوگی۔
یہی وہ حرکت ہے جسے شرک فی الرسالت ہی کا نام دیا جانا چاہئے۔
یہی وہ مرض ہے جو یہود و نصاریٰ کی تباہی کا موجب بنا اور قرآن مجید کو ان کے لیے صاف کہنا پڑا ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبة: 31)
یہود و نصاریٰ نے اپنے علماءو مشائخ کو اللہ کے سوا رب قرار دے لیا تھا۔
ان کے اوامر و نواہی کو وہ وحی آسمانی کا درجہ دے چکے تھے، اسی لیے وہ عنداللہ مغضوب اور ضالین قرار پائے۔
صد افسوس! کہ امت مسلمہ ان سے بھی دو قدم آگے ہے۔
اور علماءو مشائخ کو یقینا ایسے لوگوں نے اللہ اور رسول کا درجہ دے رکھا ہے۔
کتنے پیر و مشائخ ہیں جو قبروں کی مجاوری کرتے کرتے خدا بنے بیٹھے ہیں۔
ان کے معتقدین ان کے قدموں میں سر رکھتے ہیں۔
ان کی خدمت و اطاعت کو اپنے لیے دونوں جہاں میں کافی و افی جانتے ہیں۔
ان کی شان میں ایک بھی تنقیدی لفظ گوار نہیں کر سکتے، یقینا ایسے غالی مسلمان آیت بالا کے مصداق ہیں۔
حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں یہ رباعی کہی ہے۔
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پر دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ ایمان بگڑے نہ ا سلام جائے اقعہ مذکور ہے۔
مختصر لفظوں میں اس کی تفصیل یہ ہے:
تمام ازواج کی باری مقرر تھی۔
اور اسی کے مطابق آنحضرت ﷺ ان کے یہاں جایا کرتے تھے۔
ایک دن عائشہ ؓ کی باری تھی اور انہیں کے گھر میں آپ کا اس دن قیام بھی تھا۔
لیکن اتفاق سے کسی وجہ سے آپ حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے۔
حفصہ نے آپ کو وہاں دیکھ لیا اور آکر عائشہ سے کہہ دیا کہ باری تمہاری ہے اور آنحضرت ﷺ ماریہ ؓ کے یہاں گئے ہیں۔
عائشہ ؓ کو اس پر بڑا غصہ آیا۔
اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
آنحضرت ﷺ نے عہد کر لیا تھا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے علیحدہ رہیں گے۔
اور اس عرصے میں ان کے پاس نہیں جائیں گے۔
ا س پر صحابہ میں بہت تشویش پھیلی اور ازواج مطہرات اور ان کے عزیز و اقارب تک ہی بات نہیں رہی بلکہ تمام صحابہ ؓ اس فیصلے پر بہت پریشان ہو گئے۔
حضور اکرم ﷺ کے اس عہد کی تعبیر احادیث میں ایلا کے لفظ آتی ہے اور یہ بہت مشہور واقعہ ہے اس سے پہلے بھی بخاری میں اس کا ذکر آچکا ہے۔
ایلاءکے اسباب احادیث میں مختلف آئے ہیں۔
ایک تو وہی جو حدیث میں ذکر ہے، بعض روایتوں میں اس کا سبب ازواج مطہرات کا وہ مطالبہ بیان ہوا ہے کہ اخراجات انہیں ضرورت سے کم ملتے تھے، تنگی رہتی تھی، اس لیے تمام ازواج مطہرات نے حضور اکرم ﷺ سے کہا تھا کہ انہیں اخراجات زیادہ ملنے چاہئیں۔
بعض روایتوں میں شہد کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
علماءنے لکھا ہے کہ اصل میں یہ تمام واقعات پے در پے پیش آئے اور ان سب سے متاثر ہو کر آنحضرت ﷺ نے ایلاءکیا تھا، تاکہ ازواج کو تنبیہ ہو جائے۔
ازواج مطہرات سب کچھ ہونے کے باوجود پھر بھی انسان تھیں۔
اس لیے کبھی سوکن کی رقابت میں، کبھی کسی دوسرے انسانی جذبہ سے متاثر ہو کر اس طرح کے اقدامات کر جایا کرتی تھیں۔
جن سے آنحضرت ﷺ کو تکلیف ہوتی تھی۔
اس باب میں اس حدیث کو ا س لیے ذکر کیا کہ اس میں بالا خانے کا ذکر ہے جس میں آپ نے تنہائی اختیار کی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2468   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2468  
2468. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میری یہ خواہش رہی کہ میں حضرت عمر ؓ سے دریافت کروں کہ نبی ﷺ کی بیویوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ اور رجوع کرو (تو بہترہے) پس تمھارے دل (حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔ واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کے ہمراہ حج کو گیا تو وہ (قضائے حاجت کے لیے) راستے سے ایک طرف ہٹے۔ میں بھی پانی کا مشکیزہ لیے ان کے ہمراہ ہو گیا، چنانچہ جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر مشکیزے سےپانی ڈالا۔ انھوں نے وضوکیاتو میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین میں سے وہ کون سی دو عورتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر تم تو بہ کرو(تو تمھارے لیے بہتر ہے) پس تمھارے دل(حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔ حضرت عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2468]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے جن کا ذکر اپنے اپنے مقام پر آئے گا۔
اس مقام پر اسے پیش کرنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ مکان پر بالاخانہ تعمیر کرنا جائز ہے بشرطیکہ ہمسایوں کی پردہ دری نہ ہوتی ہو۔
اگر اس سے ان کی بے پردگی ہو تو جائز نہیں۔
(2)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے بالاخانے کا ذکر ہے، آپ کی رہائش کے علاوہ، زکاۃ وغیرہ کا جو مال آتا وہ بھی اسی میں رکھا جاتا تھا۔
دوسری روایات میں ہے کہ اس پر چڑھنے کے لیے کھجور کے تنوں کے سیڑھیاں تھی۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 387)
وہاں نگرانی کے لیے ایک حبشی غلام بھی تعینات تھا۔
بعض روایات میں صراحت ہے کہ اس کی نگرانی حضرت بلال ؒ کے ذمے تھی۔
(2)
علامہ عینى ؒ نے لکھا ہے کہ بالاخانہ چار قسم کا ہوتا ہے:
٭ مکان کی چھت پر ہو اور اس سے تاک جھانک ممکن ہو۔
اس قسم کا بالاخانہ ناجائز ہے۔
٭ مکان کی چھت پر ہو لیکن اس سے جھانک نہ پڑتی ہو۔
اس کی دیواریں اونچی ہوں۔
ایسا بالاخانہ بنانا جائز ہے۔
٭ وہ بلند مکان جو چھت کے بجائے مستقل ہو، اس سے پڑوسیوں کی بے پردگی ہوتی ہو۔
یہ بھی ناجائز ہے۔
٭ ایسا اونچا مکان جو چھت پر نہ ہو لیکن اس میں تاک جھانک کا سدباب ہو، ایسا اونچا مکان تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق اگر پڑوسی کو نقصان پہنچنے کا واضح امکان ہو تو درست نہیں بصورت دیگر بالاخانہ جائز ہے۔
(عمدة القاري: 223/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2468