صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
25. بَابُ الْغُرْفَةِ وَالْعُلِّيَّةِ الْمُشْرِفَةِ وَغَيْرِ الْمُشْرِفَةِ فِي السُّطُوحِ وَغَيْرِهَا:
باب: اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا۔
حدیث نمبر: 2469
حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَامٍ، حَدَّثَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، وَكَانَتِ انْفَكَّتْ قَدَمُهُ فَجَلَسَ فِي عُلِّيَّةٍ لَهُ، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا، فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ".
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ فزاری نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھائی تھی، اور (ایلاء کے واقعہ سے پہلے 5 ھ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں موچ آ گئی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ (ایلاء کے موقع پر) عمر رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ ایک مہینے کے لیے ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتیس دن تک بیویوں کے پاس نہیں گئے (اور انتیس تاریخ کو ہی چاند ہو گیا تھا) اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانے سے اترے اور بیویوں کے پاس گئے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2469  
2469. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے قسم اٹھائی تھی کہ ایک مہینہ اپنی بیویوں کے قریب نہیں جائیں گے، اور آپ کے پاؤں کا جوڑ نکل گیا، آپ اپنے بالاخانے میں بیٹھ گئے، حضرت عمرفاروق ؓ آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں لیکن میں نے ان کے پاس ایک ماہ کے لیے نہ جانے کی قسم اٹھائی ہے۔ چنانچہ آپ انتیس روز وہاں ٹھہرے، پھر اس بالاخانے سے اتر کر اپنی بیویوں کے پاس آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2469]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں عُليه کا لفظ آیا ہے جو بالاخانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پچھلی روایت میں مشربه کا لفظ آیا تھا جو مکان کے سامنے پینے پلانے کے کمرے کو کہتے ہیں، اسے بالاخانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اب ان کے درمیان امتیازی خصوصیت ختم ہو گئی ہے، اسے ہر کمرے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے جو مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے بنایا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی بیویوں سے ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی تو اس بالاخانے میں قیام فرمایا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
یہ واقعہ نو ہجری کو پیش آیا لیکن راوی نے غلط فہمی کی بنا پر اس میں پاؤں میں موچ آنے کا ذکر بھی کر دیا ہے۔
پاؤں میں موچ آنے کا واقعہ پانچ ہجری کا ہے جب رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گِر پڑے تھے۔
ان دونوں واقعات میں چار سال کا فاصلہ ہے۔
حضرت انس ؓ سے جب حمید طویل بیان کرتے ہیں تو وہ بعض اوقات ان دونوں واقعات کو اکٹھا کر دیتے ہیں، دیگر راوی صرف قسم اٹھانے کے واقعے کو بیان کرتے ہیں۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کو جب چوٹ لگی تو اس وقت بھی آپ نے اسی بالا خانے میں آرام فرمایا تھا۔
صحابۂ کرام ؓ آپ کی تیمارداری کے لیے تشریف لاتے اور آپ اسی کمرے میں نمازیں ادا کرتے تھے۔
بہرحال امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مکان کی چھت پر بالاخانہ بنانا جائز ہے بشرطیکہ پڑوسیوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2469