صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
26. بَابُ مَنْ عَقَلَ بَعِيرَهُ عَلَى الْبَلاَطِ أَوْ بَابُ الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد کے دروازے پر جو پتھر بچھے ہوتے ہیں وہاں یا دروازے پر اونٹ باندھ دینا۔
حدیث نمبر: 2470
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيُّ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ وَعَقَلْتُ الْجَمَلَ فِي نَاحِيَةِ الْبَلَاطِ، فَقُلْتُ: هَذَا جَمَلُكَ، فَخَرَجَ، فَجَعَلَ يُطِيفُ بِالْجَمَلِ، قَالَ: الثَّمَنُ وَالْجَمَلُ لَكَ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعقیل نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے بیان کیا کہ میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس لیے میں بھی مسجد کے اندر چلا گیا۔ البتہ اونٹ بلاط کے ایک کنارے پر باندھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کا اونٹ حاضر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اونٹ کے چاروں طرف ٹہلنے لگے۔ پھر فرمایا کہ قیمت بھی لے اور اونٹ بھی لے جا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2470  
2470. ابو المتوکل کہتے ہیں۔ میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ مسجد میں تشریف فر تھے اس لیے میں بھی مسجد میں چلا گیا اور اپنے اونٹ کو (مسجد کے سامنے)بچھے ہوئے پتھروں کے کنارے باندھ دیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ رہا آپ کا اونٹ آپ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے پاس گھومنے لگے پھر فرمایا: قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2470]
حدیث حاشیہ:
مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش تھا۔
اسی کو بلاط کہتے تھے۔
اسی جگہ اونٹ باندھنا مذکو رہے اور دورازے کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔
حافظ نے کہا اس حدیث کے دوسرے طریق میں مسجد کے دوازے کا بھی ذکر ہے۔
امام بخاری نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2470   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2470  
2470. ابو المتوکل کہتے ہیں۔ میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ مسجد میں تشریف فر تھے اس لیے میں بھی مسجد میں چلا گیا اور اپنے اونٹ کو (مسجد کے سامنے)بچھے ہوئے پتھروں کے کنارے باندھ دیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ رہا آپ کا اونٹ آپ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے پاس گھومنے لگے پھر فرمایا: قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2470]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا، اسی کو بلاط کہتے تھے۔
ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ فرش ہو جو مسجد کے سامنے پتھروں یا پکی اینٹوں سے بنایا جاتا ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مسجد کے دروازے یا اس کے متصل بازار میں کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر اونٹ یا کوئی جانور باندھا جا سکتا ہے۔
اگر وہ کسی کا نقصان کر دے تو مالک پر تاوان نہیں ہو گا، اگر کسی نے عادت بنا لی ہے تو وہ نقصان کا ذمہ دار ہو گا۔
(2)
اگرچہ اس حدیث میں دروازے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے دروازے کو اسی پر قیاس کیا ہے یا حافظ ابن حجر ؒ کے کہنے کے مطابق امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے مسجد کے دروازے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 145/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2470