سنن نسائي
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
26. بَابُ : ثَوَابِ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
باب: اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر اندازی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 3144
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ صَفْوَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ: يَا عَمْرُو: حَدِّثْنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى بَلَغَ الْعَدُوَّ، أَوْ لَمْ يَبْلُغْ كَانَ لَهُ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ، وَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً، كَانَتْ لَهُ فِدَاءَهُ مِنَ النَّارِ، عُضْوًا بِعُضْوٍ".
عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کے راستے میں (جہاد کرتے کرتے) بوڑھا ہو گیا، تو یہ چیز قیامت کے دن اس کے لیے نور بن جائے گی، اور جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر بھی چلایا خواہ دشمن کو لگا ہو یا نہ لگا ہو تو یہ چیز اس کے لیے ایک غلام آزاد کرنے کے درجہ میں ہو گی۔ اور جس نے ایک مومن غلام آزاد کیا تو یہ آزاد کرنا اس کے ہر عضو کے لیے جہنم کی آگ سے نجات دلانے کا فدیہ بنے گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10756)، سنن ابی داود/العتق 14 (3966) (قولہ ’’من أعتق‘‘ الخ فحسب)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 9 (1635) (إلی قولہ: ’’نورا یوم القیامة‘‘)، مسند احمد (4/112، 386) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3144  
´اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر اندازی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔`
عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کے راستے میں (جہاد کرتے کرتے) بوڑھا ہو گیا، تو یہ چیز قیامت کے دن اس کے لیے نور بن جائے گی، اور جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر بھی چلایا خواہ دشمن کو لگا ہو یا نہ لگا ہو تو یہ چیز اس کے لیے ایک غلام آزاد کرنے کے درجہ میں ہو گی۔ اور جس نے ایک مومن غلام آزاد کیا تو یہ آزاد کرنا اس کے ہر عضو کے لیے جہنم کی آگ سے نجات د [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3144]
اردو حاشہ:
1) اللہ تعالیٰ کے راستے میں عرف کا لحاظ رکھیں تو اس سے مراد جہاد ہوگا یعنی جس نے سیاہ بالوں کے ساتھ جہاد شروع کیا حتیٰ کہ اس کے بال سفید ہوگئے، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس سے مراد ہر نیک کام ہو کیونکہ بہت سی احادیث میں مومن کے سفید بالوں کو اس کے لیے نور قرار دیا گیا ہے، جب کہ جہاد کی فضیلت تو سفید بالوں کی محتاج نہیں۔ وہ تو اس کے علاوہ بھی افضل عمل ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) نور، یعنی وہ بال ہی نور بن جائیں گے یا اسے اس بنا پر نور حاصل ہوگا۔ ویسے بھی سفید بالوں اور نور میں ظاہری مماثلت پائی جاتی ہے اور جزا بھی مماثل ہی ہوتی ہے۔
(3) ہرعضو البہ اس میں مذکر مؤنث کا فرق نہیں، یعنی مذکر، مؤنث کو آزاد کرے یا مؤنث، مذکر کو، اسے یہ ثواب ملے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3144   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2522  
´غلام آزاد کرنے کا بیان۔`
شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: کعب بن مرہ! ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کریں، اور احتیاط سے کام لیں، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو گا، اس کی ہر ہڈی اس کی ہر ہڈی کا فدیہ بنے گی، اور جو شخص دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے گا تو یہ دونوں اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بنیں گی، ان کی دو ہڈیاں اس کی ایک ہڈی کے برابر ہوں گی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2522]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا اور مزید لکھا ہے کہ مذکورہ روایت کے بعض حصے کے شواہد صیحح مسلم (1509)
میں ہیں نیز مذکورہ روایت سنن ابی داؤد میں ہے وہاں ہمارے فاضل محقق اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ سنن ابی داؤد کی حدیث (3952)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
اس معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی مذکورہ کچھ نہ کچھ اصل ضرور ہے علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسےصیحح قرار دیا ہے دیکھیے: (الإرواء رقم: 1308)
نیز مسند احمد کے محققین نےبھی مذکورہ روایت کے بعض حصے کو صیحح قرار دیا ہے یعنی حدیث کے آخری جملے (وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنْ النَّارِ يُجْزِئُ بِكُلِّ عَظْمَيْنِ مِنْهُمَا عَظْمٌ مِنْهُ)
کے علاوہ باقی رایت کو صیحح لغیرہ قراردیا ہے لہٰذا اس ساری بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت کی کچھ اصل ضرورہے۔
مزید تفصیل دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 29/ 600، 601)

(2)
حضرت شرحبیل ؓ کو رسول اللہﷺکی خدمت میں زیادہ عرصہ حاضر رہنے کا موقع نہیں ملا اس لیے انھوں نےدوسرے صحابی سے حدیث کاعلم حاصل کیا۔

(3)
صحابیں صحابیت کا شرف حاصل ہونے کےباوجود علم حاصل کرنے کے لیے شوق رکھتے اور اس کے لیے محنت کرتے تھے، مسلمانوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام ؓ کی اس مبارک عادت کی پیروی کرتےہوئے دین کاعلم حاصل کرنے میں کوتائی نہ کریں۔

(4)
غلام آزاد کرنا جہنم سےنجات کا باعث ہے۔

(5)
لونڈی کو آزاد کرنا بھی عظیم ثواب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2522