سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
1. بَابُ : ذِكْرِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النِّكَاحِ وَأَزْوَاجِهِ وَمَا أَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم وَحَظَرَهُ عَلَى خَلْقِهِ زِيَادَةً فِي كَرَامَتِهِ وَتَنْبِيهًا لِفَضِيلَتِهِ
باب: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے۔
حدیث نمبر: 3198
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَنَازَةَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَرِفَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" هَذِهِ مَيْمُونَةُ إِذَا رَفَعْتُمْ جَنَازَتَهَا فَلَا تُزَعْزِعُوهَا وَلَا تُزَلْزِلُوهَا، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مَعَهُ تِسْعُ نِسْوَةٍ فَكَانَ يَقْسِمُ لِثَمَانٍ، وَوَاحِدَةٌ لَمْ يَكُنْ يَقْسِمُ لَهَا".
عطا کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں گئے، تو آپ نے کہا: یہ میمونہ رضی اللہ عنہا ہیں، تم ان کا جنازہ نہایت سہولت کے ساتھ اٹھانا، اسے ہلانا نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو بیویاں تھیں۔ آپ ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر کرتے تھے، اور ایک کے لیے نہیں کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 4 (5067)، صحیح مسلم/الرضاع 14 (1465)، (تحفة الأشراف: 5914)، مسند احمد (1/231، 348، 349) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جن کے لیے باری مقرر نہیں کرتے تھے وہ سودہ رضی الله عنہا ہیں انہوں نے اپنی باری عائشہ رضی الله عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3198  
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے۔`
عطا کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں گئے، تو آپ نے کہا: یہ میمونہ رضی اللہ عنہا ہیں، تم ان کا جنازہ نہایت سہولت کے ساتھ اٹھانا، اسے ہلانا نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو بیویاں تھیں۔ آپ ان میں سے [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3198]
اردو حاشہ:
(1) اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب قدرت ہے کہ حضرت میمونہؓ کا نکاح، رخصتی اور وفات تینوں مقام سرف میں ہوئے اور اسی خیمے میں دفن ہوئیں جس میں ان کی رخصتی ہوئی تھی۔ حضرت میمونہؓ حضرت ابن عباسؓ کی خالہ محترمہ تھیں۔
(2) حرکت نہ دینا عام میت کا احترام بھی واجب ہے مگر زوجہ رسول کا احترام سب سے بڑھ کر ہے۔ زندہ شخص محترم ہو تو فوت ہونے سے اس کا احترام مزید بڑھ جاتا ہے، حتیٰ کہ فوت شدہ کی قبر پر بیٹھنا بھی منع ہے، حالانکہ میت بہت نیچے ہوتی ہے۔
(3) نوبیویاں ان کے علاوہ دو بیویاں آپ کی زندگی میں فوت ہوگئی تھیں۔ لونڈیاں مزید ان کے علاوہ ہیں۔ نوبیویاں آپ کا خاصہ ہے۔ عام شخص چار سے زائد بیویاں بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔
(4) باری آپ کی ایک بیوی حضرت سودہؓ بوڑھی ہوگئی تھیں، اس لیے انہوں نے ازخود اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کر دی تھی، لہٰذا نبیﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس دودن رہتے تھے اور دوسری ازواج کے پاس ایک ایک دن۔
(5) چار سے زیادہ بیویوں کی رخصت (آپ کے لیے) اعلیٰ مقاصد کے لیے تھی: (1) آئندہ خلفاء سے رشتہ داری، مثلاً: حضرت عائشہ اور حفصہؓ سے نکاح (ب) بے سہارار بیواؤں کی حوصلہ افزائی جنہوں نے اللہ کے دین کی خاطر اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا تھا۔ خاوند فوت ہونے کے بعد وہ ا پنے گھروں کی طرف بھی رجوع نہیں کرسکتی تھیں، مثلاً: ام حبیبہ اور ام سلمہؓ تھیں۔ (ج) گھریلو مسائل بھی تفصیل سے امت تک پہنچ سکیں۔ ایک دو بیویاں یہ کام خوش اسلوبی سے نہیں کرسکتی تھیں۔ (د) دشمن گروہوں کو رام کرنے کے لیے‘ مثلاً: حضرت ام حبیبہؓ جو کہ مشرکین کے سالار ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ اس نکاح کے بعد ابوسفیان کا جوش وخروش ختم ہوگیا بالآخر مسلمان ہوگئے۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔اسی طرح حضرت صفیہؓ جو کہ یہودی سردار کی بیٹی تھیں۔ اس نکاح سے یہودیوں کا کانٹا نکل گیا۔
(6) یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رسول اللہﷺ کو بیویوں کی مقررہ تعداد 4 سے بالا قرار دینے کی بنیاد شہوت نہیں ہوسکتی کیونکہ جو شخصیت اپنی زندگی کے تجرد والے 25 سال بے عیب گزارتے ہیں او راگلے 25 سال صرف ایک بیوی‘ وہ بھی بیوہ کے ساتھ انتہائی عفت وشرافت کے ساتھ گزارتے ہیں اور مزید پانچ سال ایک دوسری بیوی (حضرت سودہؓ) کے ساتھ ہی گزارتے ہیں، کیا یہ کسی لحاظ سے بھی مانا جاسکتا ہے کہ جب ان کی عمر 55 سال ہوجاتی ہے، جوانی مکمل طور پر رخصت ہوجاتی ہے اور بڑھاپا شروع ہوجاتا ہے تو اپنی زندگی کے آخری ساٹھ سال میں شہوت کی بنا پر زائد شادیاں کرتے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ حقیقتاً رسول اللہﷺ کی زیادہ بیویوں کا عرصہ آخری پانچ سال ہیں۔ کیا کوئی معقول آدمی اسے شہوت پر محمول کرسکتا ہے؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاً جبکہ وہ شحصیت اپنی راتوں کا اکثر حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں روتے ہوئے گزاردیتی ہو۔ لازماً آپ کے کثرت ازواج کی حکمت کچھ اور تھی جس کی کچھ تفصیل اوپر ذکر ہوچکی ہے۔ فِدَاہ نفسي وروحي وأميﷺ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3198