سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
1. بَابُ : ذِكْرِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النِّكَاحِ وَأَزْوَاجِهِ وَمَا أَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم وَحَظَرَهُ عَلَى خَلْقِهِ زِيَادَةً فِي كَرَامَتِهِ وَتَنْبِيهًا لِفَضِيلَتِهِ
باب: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے۔
حدیث نمبر: 3201
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كُنْتُ أَغَارُ عَلَى اللَّاتِي وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقُولُ: أَوَتَهَبَ الْحُرَّةُ نَفْسَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ سورة الأحزاب آية 51 , قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ لَكَ فِي هَوَاكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں سے شرم کرتی تھی ۱؎ جو اپنی جان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں چنانچہ میں کہتی تھی: کیا آزاد عورت اپنی جان (مفت میں) ہبہ کر دیتی ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء‏» ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے، اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے (الاحزاب: ۵۱) اس وقت میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کا رب آپ کی خواہش کو جلد پورا کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیرسورة الأحزاب7 (4788)، النکاح29 (5113)، صحیح مسلم/الرضاع 14 (1464)، (تحفة الأشراف: 16799)، مسند احمد (6/158)، 134، 261) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ان کیلئے باعث عیب سمجھتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہبہ کریں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3201  
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں سے شرم کرتی تھی ۱؎ جو اپنی جان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں چنانچہ میں کہتی تھی: کیا آزاد عورت اپنی جان (مفت میں) ہبہ کر دیتی ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء‏» ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3201]
اردو حاشہ:
(1) پیش کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مباح رکھا تھا کہ اگر کوئی مومن مہاجر عورت اپنے آپ کو رسول اللہﷺ پر نکاح کے لیے پیش کرے تو آپ اولیاء کے بغیر اسے نکاح فرما سکتے ہیں۔ کیونکہ اولاً تو مہاجر عورتوں کے لیے اولیاء کافر ہوتے تھے جن کی ولایت ساقط ہوتی تھی، دوسرے نسبی اولیاء نہ ہونے کی صورت میں آپ حاکم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے ان کے قانونی ولی ہوتے تھے، لہٰذا عورت کی پیشکش کی صورت میں آپ کا اس سے نکاح کرلینا تمام شرائط پر پورا اترنا تھا مگر آپ نے کسی عورت سے نکاح نہیں فرمایا جس نے خود پیش کش کی ہو تاکہ کوئی نابکار الزام تراشی نہ کرسکے۔ اگرچہ یہ آپ کے لیے شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً ہر لحاظ سے جائز تھا۔
(2) پیش کرسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ بات اپنے حالات کے لحاظ سے فرمائی ورنہ ایک مہاجر، بے آسرا نوجوان عورت جو اپنے خاندان سے منقطع ہوچکی ہے، اگر اپنے آپ کو نکاح کے لیے نبی اکرمﷺ پر پیش کرے کہ اگر آپ کی ضرورت ہو تو آپ نکاح فرما لیں ورنہ کسی اور سے کردیں، اس میں ذرہ بھر بھی قباحت نہیں کیونکہ آپ حاکم اعلیٰ تھے اور ایسی بے آسرا نوجوان عورتوں کو سہارا مہیا کرنا آپ کا فرض بنتا تھا۔
(3) یہ آیت اتاری۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے لیے اپنی بیویوں کے لیے باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر قربان جائیے آپ کے اخلاق عالیہ پر کہ آپ نے باوجود اتنی وسعت کے نہ صرف باری مقرر کی بلکہ ان سب سے ہر لحاظ سے مساویانہ سلوک فرمایا۔ فِدَاہُ نَفْسِیی وَرُوحِیی وَأَبِیی وَأُمِّییﷺ۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، النكاح‘ حدیث: 2135‘ وإرواء الغلیل: 7/75)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3201   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2000  
´جس عورت نے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کیا عورت اس بات سے نہیں شرماتی کہ وہ اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے؟! تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» جس کو تو چاہے اپنی عورتوں میں سے اپنے سے جدا کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس رکھے (سورة الأحزاب: 51) تب میں نے کہا: آپ کا رب آپ کی خواہش پر حکم نازل کرنے میں جلدی کرتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2000]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلامی معاشرے میں یہ چیز اچھی نہیں سمجھی جاتی کہ عورت اپنے نکاح کے لیے خود کسی مرد سے درخواست کرے بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ درخواست عورت کے سرپرست کے ذریعے سے کی جائے۔
رسول اللہﷺ کی امتیازی شان اس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عجیب محسوس ہوئی کہ عورتیں خود ہی آکر کہہ دیتی ہیں کہ اللہ کے رسول ہم سے نکاح کرلیں۔

(2)
نبئ اکرمﷺ امت کے تمام افراد کے سرپرست تھے بلکہ نبی ﷺ کا حق سرپرستوں سے بھی زیادہ تھا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلنَّبِيُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنَ أَنْفُسِهِمْ﴾  (الأحزاب: 6)
نبی مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے والے ہیں۔

(3)
  رسول اللہﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے یہ خصوصی رعایت تھی کہ آپ پرازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان باری کی پابندی کرنا فرض نہیں تھا۔
اس کے باوجود نبیﷺ نے بیویوں میں انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش فرمایا حتی کہ زندگی کے آخری ایام میں، جب مرض کی شدت اس قدر تھی کہ ایک ام المومنین کے گھرسے دوسری کے گھر میں چل کر جانا مشکل تھا، تب بھی آپ باری باری ان کے ہاں تشریف لے جاتے رہے حتی کہ امہات المومنین نے خود ہی عرض کیا کہ آپ جس گھر میں پسند فرمائیں آرام کریں۔
تب نبیﷺ دومردوں کے سہارے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی۔
اور انہی کے حجرۂ مبارک میں دفن ہوئے۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب مرض النبیﷺ ووفاته، حدیث: 4442)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2000   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3216  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہو چکی تھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3216]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرمﷺکے لیے حلال کر دی گئیں تھیں،
یہ استنباط عائشہ رضی اللہ عنہا یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے،
﴿تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء﴾ (الأحزاب: 51) (اے ہمارے حبیب وخلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اُس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو،
(گو اس کو باری نہ بھی ہو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3216