سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
21. بَابُ : خِطْبَةِ الرَّجُلِ إِذَا تَرَكَ الْخَاطِبُ أَوْ أَذِنَ لَهُ
باب: شادی کے لیے پہلے پیغام دینے والے کے دست بردار ہو جانے یا اجازت دینے پر دوسرا شخص پیغام دے۔
حدیث نمبر: 3246
أَخْبَرَنِي حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنِ الْحَارِثِ بن عبد الرحمن , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، أَنَّهُمَا سَأَلَا فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، عَنْ أَمْرِهَا؟ فَقَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، فَكَانَ يَرْزُقُنِي طَعَامًا فِيهِ شَيْءٌ فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ كَانَتْ لِي النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لَأَطْلُبَنَّهَا وَلَا أَقْبَلُ هَذَا فَقَالَ الْوَكِيلُ: لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ , قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ، فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ، قَالَتْ: وَكَانَ يَأْتِيهَا أَصْحَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ أَعْمَى، فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ آذَنْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَنْ خَطَبَكِ؟" فَقُلْتُ: مُعَاوِيَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَإِنَّهُ غُلَامٌ مِنْ غِلْمَانِ قُرَيْشٍ لَا شَيْءَ لَهُ وَأَمَّا الْآخَرُ، فَإِنَّهُ صَاحِبُ شَرٍّ لَا خَيْرَ فِيهِ، وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ"، قَالَتْ: فَكَرِهْتُهُ، فَقَالَ لَهَا ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَنَكَحَتْهُ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے ان کے معاملہ کے متعلق پوچھا (کہ کیسے کیا ہوا؟) تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں اور کھانے کے لیے مجھے جو خوراک دینے لگے اس میں کچھ خرابی تھی (اچھا نہ تھا) تو میں نے کہا: اگر نفقہ اور سکنی میرا حق ہے تو اسے لے کر رہوں گی لیکن میں یہ (ردی سدی گھٹیا کھانے کی چیز) نہ لوں گی، (میرے شوہر کے) وکیل نے کہا: نفقہ و سکنی کا تمہارا حق نہیں بنتا۔ (یہ سن کر) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اس (بات چیت) کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: (وہ سچ کہتا ہے) تیرے لیے نفقہ و سکنی (کا حق) نہیں ہے ۱؎، تم فلاں عورت کے پاس جا کر اپنی عدت پوری کر لو ۲؎ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آتے جاتے رہتے تھے۔ (پھر کچھ سوچ کر کہ وہاں رہنے سے بےپردگی اور شرمندگی نہ ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں رہ کر اپنی عدت پوری کر لو کیونکہ وہ نابینا ہیں ۳؎، پھر جب (عدت پوری ہو جائے اور) تو دوسروں کے لیے حلال ہو جاؤ تو مجھے آگاہ کرو، چنانچہ جب میں حلال ہو گئی (اور کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے قابل ہو گئی) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس نے شادی کا پیغام دیا ہے؟ میں نے کہا: معاویہ نے، اور ایک دوسرے قریشی شخص نے ۴؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا معاویہ تو وہ قریشی لڑکوں میں سے ایک لڑکا ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، رہا دوسرا شخص تو وہ صاحب شر اور لاخیرا ہے (اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے) ۵؎، ایسا کرو تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو فاطمہ کہتی ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو لیکن وہ مجھے جچے نہیں) میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن جب آپ نے مجھے اسامہ بن زید سے تین بار شادی کر لینے کے لیے کہا تو میں نے (آپ کی بات رکھ لی اور) ان سے شادی کر لی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن ابی داود/الطلاق 39 (2284، 2285، 2286، 2287، 2289)، (تحفة الأشراف: 18036، 18038)، موطا امام مالک/الطلاق 23 (67)، مسند احمد (6/412، 413، 416)، ویأتي عند المؤلف بأرقام 3434، 3576 (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: نفقہ وسکنی (اخراجات اور رہائش) کا حق ان کے لیے ہے جن سے شوہر کو رجوع کا حق و اختیار رہتا ہے، بلکہ شوہر کے گھر میں اس کی رہائش اسی لیے رکھی جاتی ہے تاکہ اس کی مجبوری و بےقراری دیکھ کر اسے رحم آئے، اور رجوع کرے اور دونوں اعتدال و توازن اور اخلاص و محبت کی زندگی گزارنے لگیں۔ ۲؎: فلانہ سے مراد ام شریک رضی الله عنہا ہیں وہ ایک مہمان نواز خاتون تھیں۔ ۳؎: ان کے گھر میں رہتے وقت اگر دوپٹہ سر سے کھسک جائے یا سونے میں جسم کا کوئی حصہ کھل جائے تو رسوائی اور شرمندگی نہ ہو گی۔ ۴؎: اس سے مراد ابوالجہم رضی الله عنہ ہیں۔ ۵؎: یعنی عورتوں کے حقوق کی بابت وہ لاخیرا ہے، ایک روایت میں ان کے متعلق تو «ضرّاب للنّسائ» (عورتوں کی بڑی پٹائی کرنے والا) اور «لا يَضَعُ عصاه عن عاتقه» (اپنے کندھے سے لاٹھی نہ اتارنے والا) جیسے الفاظ وارد ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے تحت اس طرح کے اوصاف بیان کرنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 369  
´مطلقہ عورت کے لئے نان نفقہ ہے نہ سکونت`
«. . . 379- وعن عبد الله بن يزيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن فاطمة بنت قيس أن أبا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب، فأرسل إليها وكيله بشعير فسخطته، فقال: والله، ما لك علينا من شيء، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: ليس لك عليه من نفقة فأمرها أن تعتد فى بيت أم شريك ثم قال: تلك امرأة يغشاها أصحابي، اعتدي عند ابن أم مكتوم، فإنه رجل أعمى، تضعين ثيابك، فإذا حللت فآذنيني، قالت: فلما حللت ذكرت له أن معاوية بن أبى سفيان وأبا جهم بن هشام خطباني فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه، وأما معاوية فصعلوك لا مال له، ولكن انكحي أسامة بن زيد قالت: فكرهته، ثم قال: انكحي أسامة فنكحته فجعل الله فيه خيرا واغتبطت به. . . .»
. . . سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں (آخری تیسری طلاق) طلاق بتہ دی اور وہ (مدینے سے) غیر حاضر تھے پھر انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے سے کچھ جَو بھیجے تو وہ (کم مقدار ہونے پر) ناراض ہوئیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم پر تمہارے لئے کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے ان پر کوئی نان نفقہ (لازم) نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا پھر فرمایا: اس عورت کے پاس (اس کی سخاوت کی وجہ سے) میرے صحابہ کثرت سے جاتے رہتے ہیں، تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں، تم وہاں دوپٹا وغیرہ اتار سکتی ہو۔ پھر جب عدت ختم ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔ (فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: جب میری عدت ختم ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم بن ہشام رضی اللہ عنہ نے میری طرف شادی کا پیغام بھیجا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوجہم تو کندھے سے عصا نہیں اتارتے اور معاویہ فقیر ہیں ان کے پاس کوئی مال نہیں ہے، لیکن تم اسامہ بن زید سے شادی کر لو۔ (فاطمہ) کہتی ہیں: میں نے اسے ناپسند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسامہ سے شادی کر لو، پھر میں نے ان سے شادی کر لی تو اللہ نے اس میں خیر رکھی اور میں ان پر قابل رشک حد تک خوش رہی۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 369]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1480/36، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ مبتوتہ (جسے تیسری طلاق دی گئی ہو) کے لئے طلاق دینے والے کے ذمہ نہ کوئی نان نفقہ ہے اور نہ سکونت ہے۔
➋ خبر واحد صحیح کے ساتھ قرآن و احادیث متواترہ کی تخصيص جائز ہے۔
➌ سیدنا ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو مختلف اوقات میں تین طلاقیں دی تھیں۔
➍شرعی عذر ہو تو خیر خواہی کے طور پر کسی مسلمان پرتنقید کی جاسکتی ہے۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم خیر و بھلائی پر مبنی ہے۔
➏ طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد میاں بیوی میں مکمل جدائی ہو جاتی ہے۔
➐ بعض علماء کا سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی طرف وہم و خطا منسوب کر کے اس حدیث کو رد کرنا غلط ہے۔
➑ عورت کے لئے غیروں سے پردہ کرنا ضروری ہے لیکن نابینا سے پردہ ضروری نہیں ہے۔ اگر نابینا سے بھی پردہ کرلیا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ حدیث ام سلمه رضی اللہ عنہا: «أفعما وان أَنتما؟» کیا تم دونوں اندھی ہو؟ سے ثابت ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 4112، وسنده حسن و أخطا من ضعفه]
● حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں نیہان مجہول نہیں ہے بلکہ ترمذی، ابن حبان، حاکم اور ذہبی [الكاشف 175/3] نے اس کی توثیق کر رکھی ہے۔ والحمد للہ
➒ عورت ضرورت کے وقت غیر مردوں سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے کلام کرسکتی ہے۔
➓ طلاق یافتہ عورت معاشرے کا حصہ ہے لہٰذا اسے معیوب یا کمتر سمجھنا غلط ہے بلکہ اس کی دلجوئی اور دوسری جگہ شادی کرانے کا بندوبست کرنا چاہیے، یہ بھی واضح رہے کہ بہتر یہی ہے کہ دوسری شادی کا پیغام ایام عدت کے بعد دیا جائے۔ «وغير ذلك من الفوائد»
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 379   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3246  
´شادی کے لیے پہلے پیغام دینے والے کے دست بردار ہو جانے یا اجازت دینے پر دوسرا شخص پیغام دے۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے ان کے معاملہ کے متعلق پوچھا (کہ کیسے کیا ہوا؟) تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں اور کھانے کے لیے مجھے جو خوراک دینے لگے اس میں کچھ خرابی تھی (اچھا نہ تھا) تو میں نے کہا: اگر نفقہ اور سکنی میرا حق ہے تو اسے لے کر رہوں گی لیکن میں یہ (ردی سدی گھٹیا کھانے کی چیز) نہ لوں گی، (میرے شوہر کے)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3246]
اردو حاشہ:
(1) تین طلاق دے دیں ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں لیکن حقیقت میں ایسے نہیں، بلکہ تین طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی تھیں جیسا کہ روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ یہ حدیث پیچھے (3224کے تحت) گزر چکی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ انہوں نے جو طلاق باقی رہ گئی تھی وہ دی، یعنی تیسری طلاق، جبکہ اس سے پہلے دو طلاقیں دے چکے تھے۔
(2) پچھلی احادیث میں پیغام پر پیغام سے روکا گیا ہے۔ اس روایت میں رسول اللہﷺ نے معاویہ اور ابوجہم کے پیغامات نکاح پر اسامہ سے نکاح کا پیغام ارشاد فرمایا۔ دراصل وہ آپ سے مشورہ لینے آتی تھیں۔ آپ مخلصانہ مشورہ ارشاد فرمایا۔ حضرت اسامہؓ سے ان کا نکاح بابرکت ثابت ہوا۔
(3) آپ حضرت فاطمہ بنت قیس کی طبیعت سے واقف تھے کہ یہ کم مال والے کے ساتھ گزارہ نہ کرسکے گی اس لیے آپ نے معاویہ کے ساتھ نکاح سے روک دیا۔ ورنہ نکاح میں مال کی بجائے خلق اور دین دیکھا جاتا ہے۔
(4) صاحب شر ہے یہاں شر سے مراد شرارتی نہیں بلکہ اس کی وضاحت بعض دوسری روایات میں آتی ہے کہ وہ سخت ہے، مارتا پیٹتا ہے، اس کے ساتھ بھی تیرا گزارہ نہ ہوگا۔
(5) اچھی نہ لگی کیونکہ حضرت اسامہؓ آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ بھی آزاد شدہ لونڈی تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3246   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2035  
´کیا تین طلاق پائی ہوئی عورت نفقہ اور رہائش کی حقدار ہے؟`
ابوبکر بن ابی جہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکنیٰ (جائے رہائش) اور نفقہ کا حقدار نہیں قرار دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2035]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طلاق بائن کے بعد عدت میں عورت کو خرچ دینا مرد کے ذمے نہیں۔

(2)
  بعض علماء نے طلاق بائن کے بعد بھی عدت میں عورت کا خرچ اور رہائش وغیرہ کا انتظام مرد کے ذمے قرار دیا ہے۔
ان کی دلیل سورۃ طلاق کی پہلی آیت ہے:
﴿لا تُخرِ‌جوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُ‌جنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾  انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو، نہ وہ خود نکلیں، سوائے اس کے کہ وہ کھلی برائی کا ارتکاب کریں۔
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آیت رجعی طلاق والی عورت کے بارے میں ہے کیونکہ اس کے بعد یہ فرمان ہے:
﴿لا تَدر‌ى لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذلِكَ أَمرً‌ا﴾ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے۔
اس آیت میں نئی بات سے مراد یہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے سے امید ہے کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کے جذبات پیدا ہو کر رجوع ہونے کا امکان ہوگا۔
بائن طلاق کے بعد یہ امکان نہیں کیونکہ رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔
تفصیل کےلیے دیکھئے: (نیل الأوطار، باب ماجاء فی نفقة المبتوتة وسکناها، وباب النفقة والسکني للمعتدۃ الرجعیة)

(3)
  اگر عورت حمل سے ہوتو عدت کے دوران میں اس کا خرچ مرد کے ذمےہے، خواہ طلاق بائن ہی کیوں نہ ہو۔
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَملٍ فَأَنفِقوا عَلَيهِنَّ حَتّى يَضَعنَ حَملَهُنَّ ﴾ (الطلاق6: 65)
اگر وہ حمل سے ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک انہیں خرچ دیتے رہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2035   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1180  
´تین طلاق پائی عورت کو نہ رہنے کے لیے گھر ملے گا اور نہ کھانے پینے کا خرچہ۔`
عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں نہ «سکنی» (رہائش) ملے گا اور نہ «نفقہ» (اخراجات)۔‏‏‏‏ مغیرہ کہتے ہیں: پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ عمر رضی الله عنہ کا کہنا ہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یا بھول گئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1180]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مسند احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ تین طلاقیں تین مختلف وقتوں میں دی گئی تھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1180   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2284  
´تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی ۱؎ ابوعمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے، اس پر وہ برہم ہوئیں، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2284]
فوائد ومسائل:
شوہر جب اپنی بیوی کو مختلف اوقات میں تین طلاقیں دے دے، تو اسے رجوع کا حق حاصل نہیں رہتا۔
ایسی طلاق کو بتہ کہتے ہیں، لغت میں بت کے معنی ہیں کاٹ دینا کسی امرکو نافذ کردینا۔
اردومیں مستعمل لفظ البتہ بمعنی یقین کا ماخذبھی یہی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2284