صحيح البخاري
كِتَاب الشَّرِكَةِ -- کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
1. بَابُ الشَّرِكَةِ فِي الطَّعَامِ وَالنَّهْدِ وَالْعُرُوضِ:
باب: کھانے، سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2484
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" خَفَّتْ أَزْوَادُ الْقَوْمِ وَأَمْلَقُوا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَحْرِ إِبِلِهِمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَلَقِيَهُمْ عُمَرُ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: مَا بَقَاؤُكُمْ بَعْدَ إِبِلِكُمْ، فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا بَقَاؤُهُمْ بَعْدَ إِبِلِهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَادِ فِي النَّاسِ فَيَأْتُونَ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، فَبُسِطَ لِذَلِكَ نِطَعٌ وَجَعَلُوهُ عَلَى النِّطَعِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا وَبَرَّكَ عَلَيْهِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ بِأَوْعِيَتِهِمْ، فَاحْتَثَى النَّاسُ حَتَّى فَرَغُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ".
ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (غزوہ ہوازن میں) لوگوں کے توشے ختم ہو گئے اور فقر و محتاجی آ گئی، تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت لینے (تاکہ انہیں کے گوشت سے پیٹ بھر سکیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ راستے میں عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ان سے ہو گئی تو انہیں بھی ان لوگوں نے اطلاع دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اونٹوں کو کاٹ ڈالو گے تو پھر تم کیسے زندہ رہو گے۔ چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا، یا رسول اللہ! اگر انہوں نے اونٹ بھی ذبح کر لیے تو پھر یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، تمام لوگوں میں اعلان کر دو کہ ان کے پاس جو کچھ توشے بچ رہے ہیں وہ لے کر یہاں آ جائیں۔ اس کے لیے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا گیا۔ اور لوگوں نے توشے اسی دستر خوان پر لا کر رکھ دئیے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سب لوگوں کو اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ بلایا اور سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے۔ جب سب لوگ بھر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2484  
2484. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نے کہا کہ ایک دفعہ لوگوں کا سامان خورو نوش ختم ہو گیا اور وہ محتاج ہو گئے تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی۔ پھر ان لوگوں سے حضرت عمر ؓ ملے تو انھوں نے ان سے ماجرا بیان کیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اونٹوں کے بعد تمھاری زندگی کا انحصار کس پر ہو گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اونٹ ذبح کرنے کے بعد ان کی زندگی کیسے گزرے گی؟آپ نے فرمایا: لوگوں میں اعلان کرو کہ وہ اپنا اپنا کھانے پینے کا بقیہ سامان لے کرمیرے پاس حاضر ہوں۔ پھر چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا گیا اور تمام سامان اس پر ڈال دیا گیا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور خیروبرکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے تمام لوگوں کو برتنوں سمیت بلایا۔ چنانچہ لوگوں نے دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2484]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ایک اہم ترین معجزہ نبوی کا ذکر ہے کہ اللہ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی اپنے پیغمبر ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر کی۔
یا توہ وہ توشہ اتنا کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں کاٹنے پر آمادہ ہو گئے یا وہ اس قدر بڑھ گیا کہ فراغت سے ہر ایک نے اپنی خواہش کے موافق بھر لیا۔
اس قسم کے معجزات آنحضرت ﷺ سے کئی بار صادر ہوئے ہیں۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے سب کے توشے اکٹھا کرنے کا حکم دیا، پھر ہر ایک نے یوں ہی اندازے سے لے لیا، آپ نے تول ماپ کر اس کو تقسیم نہیں کیا۔
حدیث اور باب کی مطابقت کے سلسلہ میں شارحین بخاری لکھتے ہیں:
و مطابقته للترجمة تؤخذ من قوله فیاتون بفضل أزوادهم و من قوله فدعا و برك علیه فإن جمع أزوادهم و هو في معنی النهد و دعاءالنبي صلی اللہ علیه وسلم بالبرکة۔
(عینی)
یعنی حدیث اور باب میں مطابقت لفظ فیاتون الخ سے ہے کہ ایسے مواقع پر ان سب نے اپنے اپنے توشے لا کر جمع کر دیئے اور اس قول سے کہ آنحضرت ﷺ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی۔
یہاں ان کے توشے جمع کرنا مذکورہے اور وہ نہد کے معنی میں ہے یعنی اپنے اپنے حصے برابر برابر لا کر جمع کر دینا۔
اور ا س میں آنحضرت ﷺ کا برکت کے لیے دعا فرمانا۔
لفظ نہد یا نہد آگے بڑھنا، نمودار ہونا، مقابل ہونا ظاہر ہونا، بڑا کرنے کے معنی میں ہے۔
اسی سے لفظ تناہد ہے۔
جس کے معنی سفر کے سب رفیقوں کا ایک معین روپیہ یا راشن توشہ جمع کرنا کہ اس سے سفر کی خوردنی ضروریات کو مساوی طور پر پورا کیا جاے یہاں ایسا ہی واقعہ مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2484   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2484  
2484. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نے کہا کہ ایک دفعہ لوگوں کا سامان خورو نوش ختم ہو گیا اور وہ محتاج ہو گئے تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی۔ پھر ان لوگوں سے حضرت عمر ؓ ملے تو انھوں نے ان سے ماجرا بیان کیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اونٹوں کے بعد تمھاری زندگی کا انحصار کس پر ہو گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اونٹ ذبح کرنے کے بعد ان کی زندگی کیسے گزرے گی؟آپ نے فرمایا: لوگوں میں اعلان کرو کہ وہ اپنا اپنا کھانے پینے کا بقیہ سامان لے کرمیرے پاس حاضر ہوں۔ پھر چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا گیا اور تمام سامان اس پر ڈال دیا گیا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور خیروبرکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے تمام لوگوں کو برتنوں سمیت بلایا۔ چنانچہ لوگوں نے دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2484]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے بچے ہوئے سفر خرچ کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا، پھر آپ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی، تو لوگوں نے زیادہ اور کم کے فرق کے بغیر اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا، حالانکہ جمع شدہ خوراک میں کمی بیشی تھی، پھر انہوں نے یوں ہی اندازے سے اپنا اپنا سفر خرچ لیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے ماپ تول کر تقسیم نہیں کیا۔
امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے۔
(2)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اہم ترین معجزے کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر فرمائی۔
سفر خرچ پہلے اس قدر کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں ذبح کرنے پر آمادہ ہو گئے، پھر رسول اللہ ﷺ کے دعا کرنے سے اس میں اتنی برکت ہوئی کہ لوگوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا۔
اسی برکت کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اظہار فرمایا:
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔
آپ کے اس برمحل اظہار سے لوگوں کے عقیدے میں پختگی اور آپ کے متعلق حسن ظن کو تقویت ملی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2484