صحيح البخاري
كِتَاب الشَّرِكَةِ -- کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
3. بَابُ قِسْمَةِ الْغَنَمِ:
باب: بکریوں کا بانٹنا۔
حدیث نمبر: 2488
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ، فَأَصَابُوا إِبِلًا وَغَنَمًا، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُخْرَيَاتِ الْقَوْمِ، فَعَجِلُوا، وَذَبَحُوا، وَنَصَبُوا الْقُدُورَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَمَ فَعَدَلَ عَشَرَةً مِنَ الْغَنَمِ بِبَعِيرٍ، فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ، فَطَلَبُوهُ فَأَعْيَاهُمْ، وَكَانَ فِي الْقَوْمِ خَيْلٌ يَسِيرَةٌ، فَأَهْوَى رَجُلٌ مِنْهُمْ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا". فَقَالَ جَدِّي: إِنَّا نَرْجُو أَوْ نَخَافُ الْعَدُوَّ غَدًا، وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى، أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ؟ قَالَ: مَا أَنْهَرَ الدَّمَ، وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلُوهُ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، أَمَّا السِّنُّ: فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ: فَمُدَى الْحَبَشَةِ.
ہم سے علی بن حکم انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اور ان سے ان کے دادا (رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام ذوالحلیفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لوگوں کو بھوک لگی۔ ادھر (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے پیچھے کے لوگوں میں تھے۔ لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم سے پہلے ہی) ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں۔ لیکن بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ ہانڈیاں اوندھا دی گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ ایک اونٹ اس میں سے بھاگ گیا تو لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ قوم کے پاس گھوڑے کم تھے۔ ایک صحابی تیر لے کر اونٹ کی طرف جھپٹے۔ اللہ نے اس کو ٹھہرا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے۔ اس لیے ان جانوروں میں سے بھی اگر کوئی تمہیں عاجز کر دے تو اس کے ساتھ تم ایسا ہی معاملہ کیا کرو۔ پھر میرے دادا نے عرض کیا کہ کل دشمن کے حملہ کا خوف ہے، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (تلواروں سے ذبح کریں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے جب کہ جنگ سامنے ہے) کیا ہم بانس کے کھپچی سے ذبح کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو چیز بھی خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ سوائے دانت اور ناخن کے۔ اس کی وجہ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3183  
´قابو سے باہر ہو جانے والے جانور کو کیسے ذبح کیا جائے؟`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک اونٹ سرکش ہو گیا، ایک شخص نے اس کو تیر مارا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں کچھ وحشی ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگلی جانوروں کی طرح تو جو ان میں سے تمہارے قابو میں نہ آ سکے، اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3183]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بھاگنے سے مراد مالک سے چھوٹ کر بھاگ جانا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہو۔

(2)
بھاگے ہوئے بے قابو جانور کو دور سے تیر یا نیزہ وغیرہ (تکبیر کہہ کر)
مارا جائے تو اس کا حکم شکار كا ہوجا تا ہے، یعنی اگر اس تک لوگوں کے پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل جائے تو وہ ذبیحہ کے حکم میں ہے۔
اور اگر لوگوں کے پہنچنے تک زندہ ہو تو باقاعدہ تکبیر پڑھ کر ذبح یا نحر کیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3183   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1492  
´اونٹ، گائے اور بکری بدک کر وحشی بن جائیں تو انہیں تیر سے مارا جائے گا یا نہیں؟`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے، ایک آدمی نے اس کو تیر مارا سو اللہ نے اس کو روک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو ۱؎۔ اس سند سے بھی رافع رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ نہیں ذکر ہے کہ عبایہ نے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1492]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس پر بسم اللہ پڑھ کر تیر چلاؤ اور تیر لگ جانے پر اسے کھاؤ،
کیوں کہ بھاگنے اور بے قابو ہونے کی صورت میں اس کے جسم کا ہر حصہ محل ذبح ہے،
گویا یہ اس شکار کی طرح ہے جو بے قابو ہوکر بھاگتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1492   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2488  
2488. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے۔ اس دوران میں لوگوں کو بھوک نے ستایا تو انھیں کچھ اونٹ اور بکریاں ہاتھ لگے۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت نبی ﷺ لوگوں سے پیچھے تھے۔ اس لیے لوگوں نے جلدی کی اور جانوروں کو ذبح کر ڈالا اور ہانڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ (جب تشریف لائے تو آپ)نے حکم دیا کہ ان ہانڈیوں کو الٹ دیا جائے، چنانچہ انھیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے تقسیم فرمائی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اتفاقاً ایک اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے جس نے ان کو تھکا دیا۔ اس وقت لشکر میں گھوڑے بھی کم تھے۔ آخر کارایک شخص نے اسے تیر ماراتو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ آپ ﷺ نے فر مایا: وحشی جانوروں کی طرح ان میں بھی کچھ وحشی ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بے قابو ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ میں نے کہا: ہمیں اندیشہ ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2488]
حدیث حاشیہ:
وہ ناخن ہی سے جانور کاٹتے ہیں، تو ایسا کرنے میں ان کی مشابہت ہے۔
امام نووی ؒنے کہا کہ ناخن خواہ بدن میں لگا ہوا ہو یا جدا کیا ہوا ہو، پاک ہو یا نجس کسی حال میں اس سے ذبح جائز نہیں۔
ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر کیا۔
ہانڈیوں کو ا س لیے اوندھا کر دیا گیا کہ ان میں جو گوشت پکا یا جارہا تھا وہ ناجائز تھا۔
جسے کھانا مسلمانوں کے لیے حلال نہ تھا۔
لہٰذآپ ﷺ نے ان کا گوشت ضائع کرا دیا۔
دیوبندی حنفی ترجمہ بخاری میں یہاں لکھا گیا ہے کہ ہانڈیوں کے الٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ یعنی تقسیم کرنے کے لیے ان سے گوشت نکال لیا گیا۔
(دیکھو تفہیم البخاری دیوبندی ص142پ9)
یہ مفہوم کتنا غلط ہے۔
اس کا اندازہ حاشیہ صحیح بخاری شریف مطبوعہ کراچی جلد اول ص 338 کی عبارت ذیل سے لگایا جاسکتا ہے۔
محشی صاحب جو غالباً حنفی ہی ہیں فرماتے ہیں فأکفئت أي أقلبت و رمیت وأریق ما فیها و هو من الإکفاء قیل إنما أمر بالإکفاء لأنهم ذبحوا الغنم قبل أن یقسم فلم یطب له بذلك۔
یعنی ان ہانڈیوں کو الٹا کر دیا گیا، گرا دیا گیا اور جو ان میں تھا وہ سب بہاد یا گیا۔
حدیث کا لفظ اکفئت مصدر اکفاء سے ہے۔
کہا گیا ہے کہ آپ نے ان کے گرانے کا حکم ا س لیے صادر فرمایا کہ انہوں نے بکریوں کو مال غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی ذبح کر ڈالا تھا۔
آپ ﷺ کو ان کا یہ فعل پسند نہیں آیا۔
اس تشریح سے صاف ظاہر ہے کہ دیوبندی حنفی کا مذکورہ مفہوم بالکل غلط ہے۔
واللہ أعلم بالصواب
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2488   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2488  
2488. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے۔ اس دوران میں لوگوں کو بھوک نے ستایا تو انھیں کچھ اونٹ اور بکریاں ہاتھ لگے۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت نبی ﷺ لوگوں سے پیچھے تھے۔ اس لیے لوگوں نے جلدی کی اور جانوروں کو ذبح کر ڈالا اور ہانڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ (جب تشریف لائے تو آپ)نے حکم دیا کہ ان ہانڈیوں کو الٹ دیا جائے، چنانچہ انھیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے تقسیم فرمائی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اتفاقاً ایک اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے جس نے ان کو تھکا دیا۔ اس وقت لشکر میں گھوڑے بھی کم تھے۔ آخر کارایک شخص نے اسے تیر ماراتو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ آپ ﷺ نے فر مایا: وحشی جانوروں کی طرح ان میں بھی کچھ وحشی ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بے قابو ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ میں نے کہا: ہمیں اندیشہ ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2488]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ اندازے سے تقسیم کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے اور بکریوں کے قد ایک جیسے نہیں ہوتے اور طاقت کے اعتبار سے بھی ان میں فرق ہوتا ہے۔
اس طرح اونٹوں کا معاملہ ہے، لیکن تقسیم کرتے وقت اس قسم کے فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
معلوم ہوا کہ جانوروں کی قیمت مقرر کرنے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جب ایسا کیا جائے گا تو اس اندازے سے کیا جائے گا کہ اس حیثیت کا اونٹ ہے اور اس حیثیت کی بکریاں ہیں۔
اونٹ اور بکریوں کی مختلف اقسام ہیں۔
دونوں کی حیثیت دیکھ کر قیمت مقرر کی جائے گی۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ قیمت کا تعین کر کے جانوروں کا تبادلہ ہو گا۔
اس سے بہت دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ بکریوں کی تقسیم تعداد کے اعتبار سے ہے، اس میں قیمت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔
(2)
واضح رہے کہ اختیاری حالات میں تو جانور کو گلے ہی سے ذبح کیا جائے گا، البتہ اضطراری حالات میں کسی بھی مقام سے ذبح کیا جا سکتا ہے، نیز ذبح کرتے وقت بسم الله الله أكبر کہنا بھی ضروری ہے۔
اگر کوئی بسم الله بھول جائے یا اسے شک ہو کہ تکبیر پڑھی ہے یا نہیں تو کھاتے وقت بسم الله پڑھ لی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2488