سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
57. بَابُ : الشَّهَادَةِ فِي الرَّضَاعِ
باب: رضاعت کی گواہی کا بیان۔
حدیث نمبر: 3332
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ عُقْبَةَ وَلَكِنِّي لِحَدِيثِ عُبَيْدٍ أَحْفَظُ، قَالَ:" تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ، فَجَاءَتْنِي امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، فَأَعْرَضَ عَنِّي فَأَتَيْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، فَقُلْتُ: إِنَّهَا كَاذِبَةٌ، قَالَ:" وَكَيْفَ بِهَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّهَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا دَعْهَا عَنْكَ".
عقبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ہمارے پاس ایک حبشی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا کہ میں نے فلان بنت فلاں سے شادی کی ہے پھر میرے پاس ایک حبشی عورت آئی، اس نے کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، (یہ سن کر) آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا ۱؎ تو میں پھر آپ کے چہرے کی طرف سے سامنے آیا اور میں نے کہا: وہ جھوٹی ہے، آپ نے فرمایا: تم اسے کیسے جھوٹی کہہ سکتے ہو، جب کہ وہ بیان کرتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو اس کو چھوڑ کر اپنے سے الگ کر دو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 26 (88)، البیوع 3 (2052)، الشہادات 4 (2640)، 13 (2659)، 14 (2660)، والنکاح 23 (5104)، سنن ابی داود/الأقضیة 18 (3604)، سنن الترمذی/الرضاع 4 (1151)، (تحفة الأشراف: 9905)، مسند احمد (4/7، 8، 384، سنن الدارمی/النکاح 51 (2301) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آپ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ یہ شخص اس بات سے آگاہ ہو جائے کہ ایسی صورت میں کسی عقلمند کے لیے مناسب نہیں کہ اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھے چہ جائیکہ اس کے متعلق کوئی سوال کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 88  
´جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،" أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي . . .»
. . . عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 88]

تشریح:
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑ دیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفر کر کے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جو جو سفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرا دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 88   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3332  
´رضاعت کی گواہی کا بیان۔`
عقبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ہمارے پاس ایک حبشی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا کہ میں نے فلان بنت فلاں سے شادی کی ہے پھر میرے پاس ایک حبشی عورت آئی، اس نے کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، (یہ سن کر) آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا ۱؎ تو میں پھر آپ کے چہرے کی طرف سے سامنے آیا اور میں نے کہا: وہ جھوٹی ہے، آپ نے فرمایا: تم اسے کیسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3332]
اردو حاشہ:
(1) روایت کچھ مختصر ہے۔ یہ عقبہ بن عامر مکے میں رہتے تھے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے۔ یہ مسئلہ پیش آیا تو وہ اطمینان قلب کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ کے فرمان پر عمل کیا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
(2) اسے چھوڑ دے کیونکہ رضاعت ایک پوشیدہ چیز ہے۔ اس کے گواہ ممکن نہیں‘ نہ ایسے مواقع پر گواہ بنائے ہی جاسکتے ہیں‘ لہٰذا رضاعت پر گواہی طلب کرنا فضول ہے بلکہ مُرْضِعَۃ کی بات معتبر ہوگی۔ جس طرح پیدائش کے بارے میں دائی کی بات ہی معتبر ہوتی ہے اور اس سے گواہ طلب نہیں کیے جاتے۔ ان مواقع پر گواہی کو ضروری قراردینا بہت سی یقینی باتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا‘ اس لیے رسول اللہﷺ نے وہ نکاح فسخ کرنے کا حکم دیا۔ اگرچہ اس عورت کی تصدیق کسی نے بھی نہیں کی۔
(3) شبہات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3332   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 973  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے۔ چنانچہ عقبہ نے اس عورت کو جدا کر دیا اور اس خاتون نے دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 973»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب شهادة المرضعة، حديث:5104.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسروعہ‘ (سین کے نیچے کسرہ‘ را ساکن اور واؤ پر فتحہ ہے۔
)
عقبہ بن حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف مکی۔
مشہور صحابی ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔
پچاس ہجری کے بعد تک زندہ رہے۔
وضاحت: «ام یحییٰ» ان کا نام غَنِیَّہ ہے۔
(غین پر فتحہ نون کے نیچے کسرہ اور یا پر تشدیدہے۔
)
غنیہ بنت ابی اہاب بن عویر تمیمی۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام زینب تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 973   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1151  
´رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی کا بیان۔`
عقبہ بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1151]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ کی گواہی کافی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1151   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3603  
´رضاعت (دودھ پلانے) کی گواہی کا بیان۔`
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں: میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی: میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے ۱؎، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چہرہ پھیر لیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا معلوم؟ اسے جو کہنا تھا اس نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3603]
فوائد ومسائل:
فائدہ: رضاعت کے مسئلے میں بالخصوص اکیلی عورت کی گواہی اور خبر معتبر اورکافی ہے۔
جیسے کہ پیدائش کے وقت بچے کے زندہ ہونے کے بارے میں ایک دایہ کی گواہی معتبر اور کافی ہوتی ہے۔
تاہم خبر یا گواہی دینے والی کا معتمد اور موثوق ہونا شرط ہے۔
علمائے کرام نے خبر اور گواہی میں فرق کیا ہے۔
گواہی ہمیشہ حاکم اور قاضی کے روبرو ہوتی ہے۔
اس وجہ سے ان مسائل کی تفصیلات میں مختلف ہائے نظر موجود ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3603