سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
66. بَابُ : الْقِسْطِ فِي الأَصْدِقَةِ
باب: مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3349
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ:" فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشٍّ وَذَلِكَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ".
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس (یعنی مہر) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش ۱؎ کا مہر باندھا جس کے پانچ سو درہم ہوئے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 13 (1426)، سنن ابی داود/النکاح 29 (2105)، سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1886)، (تحفة الأشراف: 17739)، مسند احمد (6/93، 94)، سنن الدارمی/النکاح 18 (2245) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ایک نش بیس درہم کا ہوتا ہے، یا اس سے ہر چیز کا نصف مراد ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3349  
´مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس (یعنی مہر) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش ۱؎ کا مہر باندھا جس کے پانچ سو درہم ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3349]
اردو حاشہ:
(1) اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ ساڑھے بارہ اوقیے پانچ سودرہم بنتے ہیں۔
(2) نکاح کیے یعنی خود اپنی ازواج مطہرات سے اور اپنی بیٹیوں کے نکاح اپنے دامادوں سے کیے۔ اگر اکثر نکاح اس مہر پر ہوں تو مندرجہ بالا الفاظ بولے جاسکتے ہیں‘ خواہ سب نکاح اس مہر پر نہ بھی ہوں۔ یہ معقول مہر تھا۔ آج کل ہمارے سکے کے لحاظ سے تقریباً دس ہزار روپے بنتے ہیں‘ حالانکہ وہ تنگی کا دور تھا۔ یہ جو آج کل سوا بتیس روپے کو شرعی مہر سمجھا جاتا ہے‘ یہ کس دور کا حساب ہے؟ اللہ جانے! یہ انتہائی غیر معقول ہے چہ جائیکہ شرعی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3349   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1886  
´عورتوں کے مہر کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر کیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا، تم جانتے ہو نش کیا ہے؟ یہ آدھا اوقیہ ہے، یہ کل پانچ سو درہم ہوئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1886]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح میں حق مہر ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَ‌اءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَافِحِينَ﴾ (النساء، 4: 24)
اور ان (مذکورہ بالا)
عورتوں کے سوا، دوسری عورتیں تم پر حلال کی گئیں کہ اپنے مال سے (حق مہر دے کر)
تم ان سے نکاح کرنا چاہو (تو کر لو)
برے کام سے بچنے کے لیے، نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لیے۔

(2)
مذکورہ بالا آیت میں شرعی نکاح کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔

اول یہ کہ طلب کرو ﴿أَن تَبْتَغُوا﴾  یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو۔

دوسری یہ کہ مال دو ﴿بِأَمْوَالِكُم﴾  یعنی حق مہر ادا کرو۔

تیسری یہ کہ ان کو شادی کی دائمی قید میں لانا مقصود ہو۔
متعہ یا حلالہ نہ ہو ﴿مُّحْصِنِينَ﴾  قلعہ (حصن)
میں بند کرنے والے۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ چھپی دوستی نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو۔
﴿وَلَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَان﴾ نہ چھپی دوستی والیاں۔ (السناء، 4: 25) (مفہوم تفسیر احسن البیان، حافظ صلاح الدین یوسف)

(3)
حق مہر بہت زیادہ مقرر نہیں کرنا چاہیے جس کی ادائیگی خاوند کے لیے دشوار ہو اور بہت کم بھی مقرر نہیں کرنا چاہیے جس کی خاوند کی نظر میں کوئی اہمیت نہ ہو۔

(4)
اگر خاوند مفلس ہو تو حق مہر بہت کم بھی مقرر کیا جاسکتا ہے، خواہ لوہے کا چھلا ہی ہو۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5150، وصحیح مسلم، النکاح، حدیث: 1425)

(5)
پانچ سو درہم کی مقدار تقریباً ڈیڑھ کلو گرام چاندی کے برابر ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1886   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2105  
´مہر کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کی ازواج مطہرات) کے مہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا ۱؎، میں نے کہا: نش کیا ہے؟ فرمایا: آدھا اوقیہ ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2105]
فوائد ومسائل:
ایک اوقیہ میں چالیس درہم چاندی ہوتے ہیں لہذا یہ مقدار پانچ سو درہم ہوئی اور موجودہ معیار کے مطابق ایک درہم کا وزن 975۔
2 گرام اور پچھلے علماء کے حساب سے 06۔
3 گرام ہوتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2105