سنن نسائي
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
25. بَابُ : الإِبَانَةِ وَالإِفْصَاحِ بِالْكَلِمَةِ الْمَلْفُوظِ بِهَا إِذَا قَصَدَ بِهَا لِمَا لاَ يَحْتَمِلُ مَعْنَاهَا لَمْ تُوجِبْ شَيْئًا وَلَمْ تُثْبِتْ حُكْمًا
باب: زبان سے ادا کیے ہوئے کلمہ کا اگر کوئی وہ معنی و مفہوم مراد لے جو اس سے نہیں نکلتا تو اس سے کوئی حکم ثابت نہ ہو گا۔
حدیث نمبر: 3468
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ:" انْظُرُوا كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ، وَلَعْنَهُمْ، إِنَّهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا، وَأَنَا مُحَمَّدٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا دیکھو تو (غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 13782)، مسند احمد (2/244، 340، 369) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی نام اور وصف دونوں اعتبار سے میں محمد ہوں، لہٰذا مجھ پر مذمم کا اطلاق کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں، کیونکہ محمد کا مطلب ہے جس کی تعریف کی گئی ہو تو مجھ پر ان کی گالیوں اور لعنتوں کا اثر کیونکر پڑ سکتا ہے۔ گویا ایسا لفظ جو طلاق کے معنی و مفہوم کے منافی ہے اس کا اطلاق طلاق پر اسی طرح نہیں ہو سکتا جس طرح مذمم کا اطلاق محمد پر نہیں ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3468  
´زبان سے ادا کیے ہوئے کلمہ کا اگر کوئی وہ معنی و مفہوم مراد لے جو اس سے نہیں نکلتا تو اس سے کوئی حکم ثابت نہ ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا دیکھو تو (غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3468]
اردو حاشہ:
قریش مکہ جب اپنے منصوبوں میں ناکام ہوتے تو جلتے بھنتے ہوئے نبی اکرمﷺ کو برا کہنے لگتے لیکن وہ لعن طعن کے وقت محمد ﷺ کے بجائے مذمم کا لفظ بولتے کیونکہ محمد کے معنیٰ تو ہیں وہ شخص جس کی سب تعریفیں کریں۔ اگر وہ آپ کو محمد کہہ کر گالی گلوچ کرتے تو یہ اجتماع نقیضین تھا۔ ویسے بھی وہ آپ کو اتنے اچھے نام کے ساتھ پکارنا نہیں چاہتے تھے‘ لہٰذا وہ محمد کے لفظ کو مذمم سے بدل دیتے اور گالیاں دیتے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو گالی گلوچ سے بچا لیا۔ امام رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی لفظ کے ایسے معنی مراد نہیں لیے جا سکتے جس سے وہ معنیٰ کسی بھی لحاظ سے سمجھ میں نہ آتے ہوں‘ جیسے مذمم کے معنیٰ کسی بھی صورت میں محمد نہیں ہوسکتے۔ یہاں نیت کفایت نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی ایسا لفظ بول کر طلاق مراد نہیں لی جاسکتی جو کسی لحاظ سے بھی طلاق کے معنیٰ نہ دیتا ہو‘ خواہ نیت طلاق ہی کی ہو‘ مثلاً: کوئی کہے: میں نے تجھے انعام دیا اور طلاق مراد لے تو یہ ممکن نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3468