سنن نسائي
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
26. بَابُ : التَّوْقِيتِ فِي الْخِيَارِ
باب: شوہر کے پاس رہنے یا اس سے الگ ہونے کے اختیار کی مدت متعین کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3470
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" لَمَّا نَزَلَتْ وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ سورة الأحزاب آية 29، دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي، حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ، أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِّي بِفِرَاقِهِ، فَقَرَأَ عَلَيَّ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا سورة الأحزاب آية 28 , فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ، وَرَسُولَهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ، وَالْأَوَّلُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «إن كنتن تردن اللہ ورسوله» اتری تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کر لینے کا مشورہ و حکم دینے والے ہرگز نہیں ہیں، پھر آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» میں نے (یہ آیت سن کر) آپ سے عرض کیا: کیا آپ مجھے اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کر لینے کے لیے کہہ رہے ہیں، میں تو اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں (اس بارے میں مشورہ کیا کرنا؟)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ (یعنی حدیث «معمر عن الزہری عن عائشہ» غلط ہے اور اول (یعنی حدیث «یونس و موسیٰ عن ابن شہاب، عن أبی سلمہ عن عائشہ» زیادہ قریب صواب ہے۔ واللہ أعلم۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 15 (4786م) تعلیقًا، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1475)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 20 (209)، تحفة الأشراف: 16632)، مسند احمد (6/33، 163، 185، 263) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3470  
´شوہر کے پاس رہنے یا اس سے الگ ہونے کے اختیار کی مدت متعین کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «إن كنتن تردن اللہ ورسوله» اتری تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کر لینے کا مشورہ و حکم دینے والے ہرگز نہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3470]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث معمر عن الزہری عن عروہ کے طریق سے محفوظ ہے اور یونس وموسیٰ عن الزہری عن ابی سلمہ کے طریق سے محفوظ ہے لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا یہ خیال محل نظر معلوم ہوتا ہے کیونکہ معمر‘ عروہ سے بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ ان کی متابعت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: معمرکی‘ عروہ سے بیان کرنے میں جعفر بن برقان نے متابعت کی ہے۔ ممکن ہے زہری نے یہ حدیث (عروہ اور ابوسلمہ) دونوں سے سنی ہو‘ انہوں نے کبھی ایک سے بیان کردیا اور کبھی دوسرے سے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: 8/523) معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طریق محفوظ ہیں اور حدیث دونوں طرق سے صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3470   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2053  
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) اے نبی! اپنی بیویو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ان تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔

(2)
  اس میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی رسو ل اللہﷺ سے محبت کا بیان ہے۔

(3)
  امہات المومنین کے عظیم ایمان اور آخرت کےاجر و ثواب کی طلب کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کے ثواب کے حصول کا فیصلہ فرمالیا۔

(4)
رسول اللہﷺ کی یہ خواہش کہ والدین سے مشورہ کرکے جواب دیں، اس لیے تھی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری کی وجہ سے کوئی غلط جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔

(5)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے ایمان کی پختگی اور ایمانی فراست پر نبیﷺ کا اعتماد۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2053