سنن نسائي
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
32. بَابُ : الإِيلاَءِ
باب: ایلاء یعنی ناراضگی کی بناء پر بیوی سے علیحدہ رہنے کی قسم کھا لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3485
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، قَالَ: تَذَاكَرْنَا الشَّهْرَ عِنْدَهُ، فَقَالَ بَعْضُنَا: ثَلَاثِينَ، وَقَالَ بَعْضُنَا: تِسْعًا وَعِشْرِينَ، فَقَالَ أَبُو الضُّحَى: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَصْبَحْنَا يَوْمًا وَنِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِينَ، عِنْدَ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَهْلُهَا، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ مَلْآنٌ مِنَ النَّاسِ , قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَصَعِدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي عُلِّيَّةٍ لَهُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، فَرَجَعَ فَنَادَى بِلَالًا، فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ فَقَالَ:" لَا، وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا، فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ، فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ".
ابویعفور کہتے ہیں کہ ہم ابوالضحیٰ کے پاس تھے اور ہماری بحث مہینہ کے بارے میں چھڑ گئی، بعض نے کہا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور بعض نے کہا: انتیس (۲۹) دن کا۔ ابوالضحیٰ نے کہا: (سنو) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے حدیث بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح ہم سب کی ایسی آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رو رہی تھیں اور ان سبھی کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے، میں مسجد میں پہنچا تو مسجد (کھچا کھچ) بھری ہوئی تھی، (اس وقت) عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اوپر چڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ اپنے بالا خانہ میں تھے، آپ کو سلام کیا تو کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سلام کیا پھر کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، پھر سلام کیا پھر انہیں کسی نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ پھر لوٹ پڑے اور بلال کو بلایا ۱؎ اور اوپر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا: کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن میں نے ان سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا ہے، پھر آپ انتیس (۲۹) دن (اوپر) وہاں قیام فرما رہے، پھر نیچے آئے اور اپنی بیویوں کے پاس گئے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح92 (5203)، (تحفة الأشراف: 6455) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «نادی بلالا» (بلال کو بلایا) کے بجائے «نادی بلال» ہے جیسا کہ فتح الباری۹/۳۰۲ میں مذکور ہے، یعنی عمر رضی الله عنہ کو بلال نے آواز دی۔ «ایلاء» کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور شرع میں «ایلاء» یہ ہے کہ جماع پر قدرت رکھنے والا شوہر اللہ کے نام یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم اس بات پر کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے اپنے سے جدا رکھے گا اور اس سے جماع نہیں کرے گا۔ اس تعریف کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ «ایلاء» لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا، کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے «ایلاء» کیا تھا اور اس «ایلاء» کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ «ایلاء» کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ دے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہے، اور کفارہ یمین یہ ہے: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن روزے رکھنا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 89  
´خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے`
«. . . وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ . . .»
. . . ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 89]

تشریح:
اس انصاری کا نام عتبان بن مالک تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھبرا کر اس لیے پوچھا کہ ان دنوں مدینہ پر غسان کے بادشاہ کے حملہ کی افواہ گرم تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید غسان کا بادشاہ آ گیا ہے۔ اسی لیے آپ گھبرا کر باہر نکلے پھر انصاری کی خبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا کہ اس نے ایسی بے اصل بات کیوں کہی۔ اسی لیے بے ساختہ آپ کی زبان پر نعرہ تکبیر آ گیا۔ باری اس لیے مقرر کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاجر پیشہ تھے اور وہ انصاری بھائی بھی کاروباری تھے۔ اس لیے تاکہ اپنا کام بھی جاری رہے اور علوم نبوی سے بھی محرومی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ طلب معاش کے لیے بھی اہتمام ضروری ہے۔ اس حدیث کی باقی شرح کتاب النکاح میں آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 89   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3485  
´ایلاء یعنی ناراضگی کی بناء پر بیوی سے علیحدہ رہنے کی قسم کھا لینے کا بیان۔`
ابویعفور کہتے ہیں کہ ہم ابوالضحیٰ کے پاس تھے اور ہماری بحث مہینہ کے بارے میں چھڑ گئی، بعض نے کہا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور بعض نے کہا: انتیس (۲۹) دن کا۔ ابوالضحیٰ نے کہا: (سنو) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے حدیث بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح ہم سب کی ایسی آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رو رہی تھیں اور ان سبھی کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے، میں مسجد میں پہنچا تو مسجد (کھچا کھچ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3485]
اردو حاشہ:
(1) ایلا قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد ہے: بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھا لینا۔ اگر کبھی خاوند بیوی سے ناراض ہوجائے اور ایسی قسم کھا لے تو اس پر کاربند رہ سکتا ہے لیکن چار ماہ تک۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ مدت کی قسم کھائے گا تو پھر چار ماہ گزرنے پر اسے یا تو قسم ختم کرکے جماع کرنا ہوگا اور قسم کا کفارہ دینا ہوگا یا پھر طلاق دینی ہوگی۔ اگر وہ دونوں باتوں سے انکار کرے تو حاکم وقت (قاضی وغیرہ) اپنے اختیارات کے تحت عورت پر طلاق لاگو کردے گا۔ اور وہ عورت خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے قسم ہی صرف ایک ماہ کی کھائی تھی۔ اور قسم پوری فرما دی۔
(2) رورہی تھیں انہیں یہ خیال ہوگیا تھا کہ شاید ایسی قسم کھانے سے طلاق پڑجاتی ہے۔ یا ممکن ہے آپ کی ناراضی اور جدائی کی بنا پر رورہی ہوں۔
(3) کسی نے جواب نہ دیا یعنی اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ سلام کا جواب آہستہ دے لیا ہو گا۔
(4) انتیس دن کیونکہ مہینہ انتیس کا بھی ہوسکتا ہے‘ تیس کا بھی۔ شریعت نے انتیس دن کو پورا مہینہ قراردیا ہے‘ لہٰذا اگر قسم ایک ماہ کی ہو تو انتیس دن بعد وہ قسم پوری ہوجائے گی‘ چاہے کسی بھی چیز کے بارے میں ہو۔
(5) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرمﷺ کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ہر چھوٹی بڑی پریشانی میں اپنا ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے مسابقت کرتے تھے۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْهم وَرَضُوْعَنْه۔
(6) ضرورت کے تحت ایک سے زائد منزلہ عمارت بنائی جاسکتی ہے لیکن اس کی بناوٹ ایسی ہو کہ پڑوسیوں کے گھروں میں نظر نہ پڑے تاکہ انہیں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
(7) قسم کھانے والے کے بارے میں اگر یہ شبہ ہو کہ یہ بھول گیا ہے تو اسے یاد کرا دینا چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3485   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5201  
´کیا (مل کر) جدا ہو جانے والا دوبارہ ملنے پر سلام کرے؟`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ اپنے ایک کمرے میں تھے، اور کہا: اللہ کے رسول! السلام عليكم کیا عمر اندر آ سکتا ہے ۱؎؟۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5201]
فوائد ومسائل:
یہ ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ نے پہلی اور دوسری بار اجازت طلب کی تو نہ ملی پھر طلب کی تو مل گئی۔
اس وقفے میں آپ بار بار السلام علیکم کہتے رہے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5201