سنن نسائي
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
34. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْخُلْعِ
باب: خلع کا بیان۔
حدیث نمبر: 3494
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ امْرَأَتِي لَا تَمْنَعُ يَدَ لَامِسٍ، فَقَالَ:غَرِّبْهَا إِنْ شِئْتَ، قَالَ: إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَتَّبِعَهَا نَفْسِي، قَالَ: اسْتَمْتِعْ بِهَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎ آپ نے فرمایا: چاہو تو طلاق دے دو، اس نے کہا میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میرا دل اٹکا نہ رہے۔ آپ نے فرمایا: پھر تو اس سے اپنا کام نکالتے رہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح4 (2049)، (تحفة الأشراف: 6161) (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3494  
´خلع کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎ آپ نے فرمایا: چاہو تو طلاق دے دو، اس نے کہا میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میرا دل اٹکا نہ رہے۔ آپ نے فرمایا: پھر تو اس سے اپنا کام نکالتے رہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3494]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر 3231۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3494   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2049  
´بانجھ عورت سے شادی کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میری عورت کسی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے سے جدا کر دو، اس شخص نے کہا: مجھے ڈر ہے میرا دل اس میں لگا رہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2049]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث صحیح ہے۔
اور یہ جملہ (لاتمنع يد  لامس) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان باوقار اور باغیر ت خاتون ہونے کے ناطے اس کے اندر غیروں سے کوئی نفرت ووحشت نہیں ہے۔
(مگر فعلا ً اس سے کوئی بدکاری صادرنہیں ہوئی) تو نبیﷺ نے اولاً اسے طلاق دینے کا فرمایا۔
مگر شوہر نے اپنی کیفیت بتائی تو رخصت دے دی جیسے کہ دین سے دور معاشروں میں ایسی کیفیات پائی جاتی ہیں۔
مگر یہ معنی کرنا کہ وہ فعلاً بدکار تھی۔
پھر نبی کریمﷺ نے ا س کو گھر میں رکھنے کی اجازت دے دی۔
ایک ناقابل تصور معنی ہے۔
کیونکہ زانیہ سے نکاح حرام ہے۔
اور ایسا انسان جو اپنے اہل میں فحش کاری پرخاموش ہو دیوث ہوتا ہے۔
اسی لئے کچھ محدثین نے اس کا وہی مفہوم بیان کیا ہے۔
جو ہم نے شروع میں بیان کیا ہے۔
بہرحال بُری عادات کی بنا پر عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے۔
یہ حدیث اس باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اگلی حدیث اس باب کے مطابق ہے۔
اس حدیث پر باب سہواً رہ گیا ہے یا کسی ناسخ (نقل کرنے والے) سے کوئی سہو ہوگیا ہے۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2049