صحيح البخاري
كِتَاب الرَّهْنِ -- کتاب: رہن کے بیان میں
1. بَابٌ في الرَّهْنِ فِي الْحَضَرِ:
باب: آدمی اپنی بستی میں ہو اور گروی رکھے۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ سورة البقرة آية 283.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا «وإن كنتم على سفر ولم تجدوا كاتبا فرهان مقبوضة‏» اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضہ میں رکھ لو۔
حدیث نمبر: 2508
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" وَلَقَدْ رَهَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْعَهُ بِشَعِيرٍ، وَمَشَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: مَا أَصْبَحَ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَاعٌ، وَلَا أَمْسَى، وَإِنَّهُمْ لَتِسْعَةُ أَبْيَاتٍ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ جَو کے بدلے گروی رکھی تھی۔ ایک دن میں خود آپ کے پاس جَو کی روٹی اور باسی چربی لے کر حاضر ہوا تھا۔ میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ آل محمد پر کوئی صبح اور کوئی شام ایسی نہیں آئی کہ ایک صاع سے زیادہ کچھ اور موجود رہا ہو، حالانکہ آپ کے نو گھر تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2508  
2508. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کے عوض اپنی زرہ گروی رکھی۔ اور میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور باسی چربی لے کرحاضر ہواتھا اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: محمد ﷺ کے گھر والوں پر کوئی صبح یا شام ایسی نہیں گزری کہ ان کے پاس ایک صاع سے زیادہ رہا ہو۔ حالانکہ آپ کے نوگھر ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2508]
حدیث حاشیہ:
یہ آپ نے اپنا واقعہ بیان فرمایا، دوسرے مومنین کو تسلی دینے کے لیے نہ کہ بطور شکوہ اور شکایت کے۔
اہل اللہ تو فقر اور فاقہ پر ایسی خوشی کرتے ہیں جو غنا اور تونگری پر نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ فقر اور فاقہ اور دکھ اور بیماری خالص محبوب یعنی خداوند کریم کی مراد ہے اور غنا اور تونگری میں بندے کی مراد بھی شریک ہوتی ہے۔
حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاءقدس سرہ سے منقول ہے۔
جب وہ اپنے گھر میں جاتے اور والدہ سے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟ وہ کہتی بابا نظام الدین ماامروز مہمان خدائیم تو بے حد خوشی کرتے اور جس دن وہ کہتی کہ ہاں! کھانا حاضر ہے تو کچھ خوشی نہ ہوتی۔
(وحیدی)
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ مُعَامَلَةِ الْكُفَّارِ فِيمَا لَمْ يَتَحَقَّقْ تَحْرِيمُ عَيْنِ الْمُتَعَامَلِ فِيهِ وَعَدَمُ الِاعْتِبَارِ بِفَسَادِ مُعْتَقَدِهِمْ وَمُعَامَلَاتِهِمْ فِيمَا بَيْنَهُمْ وَاسْتُنْبِطَ مِنْهُ جَوَازُ مُعَامَلَةِ مَنْ أَكْثَرُ مَالِهِ حَرَامٌ وَفِيهِ جَوَازُ بَيْعِ السِّلَاحِ وَرَهْنِهِ وَإِجَارَتِهِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْكَافِرِ مَا لَمْ يَكُنْ حَرْبِيًّا وَفِيهِ ثُبُوتُ أَمْلَاكِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِي أَيْدِيهِمْ وَجَوَازُ الشِّرَاءِ بِالثَّمَنِ الْمُؤَجَّلِ وَاتِّخَاذِ الدُّرُوعِ وَالْعُدَدِ وَغَيْرِهَا مِنْ آلَاتِ الْحَرْبِ وَأَنَّهُ غَيْرُ قَادِحٍ فِي التَّوَكُّلِ وَأَنَّ قُنْيَةَ آلَةِ الْحَرْبِ لَا تَدُلُّ على تحبيسها قَالَه بن الْمُنِيرِ وَأَنَّ أَكْثَرَ قُوتِ ذَلِكَ الْعَصْرِ الشَّعِيرُ قَالَهُ الدَّاوُدِيُّ وَأَنَّ الْقَوْلَ قَوْلُ الْمُرْتَهِنِ فِي قيمَة الْمَرْهُون مَعَ يَمِينه حَكَاهُ بن التِّينِ وَفِيهِ مَا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ التَّوَاضُعِ وَالزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا وَالتَّقَلُّلِ مِنْهَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَيْهَا وَالْكَرَمِ الَّذِي أَفْضَى بِهِ إِلَى عَدَمِ الِادِّخَارِ حَتَّى احْتَاجَ إِلَى رَهْنِ دِرْعِهِ وَالصَّبْرِ عَلَى ضِيقِ الْعَيْشِ وَالْقَنَاعَةِ بِالْيَسِيرِ وَفَضِيلَةٌ لِأَزْوَاجِهِ لِصَبْرِهِنَّ مَعَهُ عَلَى ذَلِكَ وَفِيهِ غَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا مَضَى وَيَأْتِي قَالَ الْعُلَمَاءُ الْحِكْمَةُ فِي عُدُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُعَامَلَةِ مَيَاسِيرِ الصَّحَابَةِ إِلَى مُعَامَلَةِ الْيَهُودِ إِمَّا لِبَيَانِ الْجَوَازِ أَوْ لِأَنَّهُمْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ إِذْ ذَاكَ طَعَامٌ فَاضل عَنْ حَاجَةِ غَيْرِهِمْ أَوْ خَشِيَ أَنَّهُمْ لَا يَأْخُذُونَ مِنْهُ ثَمَنًا أَوْ عِوَضًا فَلَمْ يُرِدِ التَّضْيِيقَ عَلَيْهِمْ فَإِنَّهُ لَا يَبْعُدُ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ إِذْ ذَاكَ مَنْ يَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ وَأَكْثَرَ مِنْهُ فَلَعَلَّهُ لَمْ يُطْلِعْهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَإِنَّمَا أَطْلَعَ عَلَيْهِ مَنْ لَمْ يَكُنْ مُوسِرًا بِهِ مِمَّنْ نَقَلَ ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ (فتح الباري)
یعنی اس حدیث سے کفار کے ساتھ ایسی چیزوں میں جن کی حرمت متحقق نہ ہو، معاملہ کرنے کا جواز ثابت ہوا اس بارے میںان کے معتقدات اور باہمی معاملات کے بگاڑ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس سے ان کے ساتھ بھی معاملہ کا جواز ثابت ہوا جن کے مالک کا اکثر حصہ حرام سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے کافر کے ہاتھ ہتھیاروں کا رہن رکھناو بیچنا ثابت ہوا جب تک وہ حربی نہ ہو اور اس سے ذمیوں کے املاک کا بھی ثبوت ہوا جو ان کے قابو میں ہوں اور اس سے ادھار قیمت پر خرید کرنا بھی ثابت ہوا اور زرہ وغیرہ آلات حرب کا تیار کرنا بھی ثابت ہوا، اور یہ کہ اس قسم کی تیاریاں تو کل کے منافی نہیں ہیں اور یہ کہ آلات حرب کا ذخیرہ جمع کرنا ان کے روکنے پر دلالت نہیں کرتا۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس زمانہ میں زیادہ تر کھانے میں جو کا رواج تھا۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ شئے مرہونہ کے بارے میں قسم کے ساتھ مرتہن کا قول ہی معتبر مانا جائے گا اور اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کا زہد و توکل بھی بدرجہ اتم ثابت ہوا۔
حالانکہ آپ کو ہر قسم کی آسانیاں بہم تھیں۔
ان کے باوجود آپ نے دنیا میں ہمیشہ کمی ہی کو محبوب رکھا اور آپ کا کرم و سخا اور عدم ذخیرہ اندوزی بھی ثابت ہوا۔
جس کے نتیجہ میں آپ کو مجبوراً اپنی زرہ کو رہن رکھنا ضروری ہوا اور آپ کا صبر بھی ثابت ہوا جو آپ تنگی معاش میں فرمایا کرتے تھے اورکم سے کم پر آپ کا قناعت کرنا بھی ثابت ہوا اور آپ کی بیویوں کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو وہ آپ کے ساتھ کرتی تھیں اور اس بارے میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے بجائے یہودیوں سے ادھار کا معاملہ کیوں فرمایا؟ علماءنے ایک حکمت بیان کی ہے کہ آپ نے یہ معاملہ جواز کے اظہار کے لیے فرمایا، یا اس لیے کہ ان دنوں صحابہ کرام کے پاس فاضل غلہ نہ تھا۔
لہٰذا مجبوراً یہود سے آپ کو معاملہ کرنا پڑا۔
یا اس لیے بھی کہ آپ جانتے تھے کہ صحابہ کرام بجائے ادھار معاملہ کرنے کے بلا قیمت ہی وہ غلہ آپ کے گھر بھیج دیں گے اور خواہ مخواہ ان کو تنگ ہونا پڑے گا، اس لیے خاموشی سے آپ نے یہود سے ہی کام چلالیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2508   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2508  
2508. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کے عوض اپنی زرہ گروی رکھی۔ اور میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور باسی چربی لے کرحاضر ہواتھا اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: محمد ﷺ کے گھر والوں پر کوئی صبح یا شام ایسی نہیں گزری کہ ان کے پاس ایک صاع سے زیادہ رہا ہو۔ حالانکہ آپ کے نوگھر ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2508]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس حدیث میں حضر میں رہن رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؓ نے اس حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے اہل خانہ کے لیے جو لیے تھے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2069)
یہودی کا نام ابو شحم اور وہ بنو ظفر سے تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ذات الفضول نامی زرہ گروی رکھی اور اس سے تیس صاع جو ادھار لیے۔
مسند امام احمد میں ہے کہ آپ کی وفات تک وہ زرہ گروی رہی۔
(مسند أحمد: 238/3)
حضرت ابوبکر ؓ نے قرض دے کر وہ زرہ واپس لی۔
(فتح الباري: 174/5) (2)
رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے بجائے ایک یہودی سے ادھار کا معاملہ کیا۔
اس کی کئی ایک وجوہات علماء نے بیان کی ہیں:
ایک یہ ہے کہ ان دنوں صحابۂ کرام ؓ کے پاس فالتو غلہ نہ تھا، اس لیے مجبوراً ایک یہودی سے یہ معاملہ کرنا پڑا۔
دوسری یہ کہ آپ اس بات کا بخوبی علم رکھتے تھے کہ صحابۂ کرام تکلف کریں گے اور آپ کو بلا معاوضہ غلہ دیں گے، خواہ مخواہ انہیں تنگ ہونا پڑے گا۔
اس بنا پر خاموشی سے یہ معاملہ کر لیا۔
(فتح الباري: 175/5)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2508