صحيح البخاري
كِتَاب الرَّهْنِ -- کتاب: رہن کے بیان میں
3. بَابُ رَهْنِ السِّلاَحِ:
باب: ہتھیار گروی رکھنا۔
حدیث نمبر: 2510
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: أَنَا، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقَالَ: ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ؟ قَالَ: فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ؟ فَيُقَالُ: رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا، وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ الَّأْمَةَ". قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي السِّلَاحَ، فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف (یہودی اسلام کا پکا دشمن) کا کام کون تمام کرے گا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت تکلیف دے رکھی ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں (یہ خدمت انجام دوں گا) چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہا کہ ایک یا دو وسق غلہ قرض لینے کے ارادے سے آیا ہوں۔ کعب نے کہا لیکن تمہیں اپنی بیویوں کو میرے یہاں گروی رکھنا ہو گا۔ محمد بن مسلمہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم اپنی بیویوں کو تمہارے پاس کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں جب کہ تم سارے عرب میں خوبصورت ہو۔ اس نے کہا کہ پھر اپنی اولاد گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی اولاد کس طرح رہن رکھ سکتے ہیں اسی پر انہیں گالی دی جایا کرے گی کہ ایک دو وسق غلے کے لیے رہن رکھ دیے گئے تھے تو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہو گی۔ البتہ ہم اپنے ہتھیار تمہارے یہاں رہن رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ لفظ «لأمة» سے مراد ہتھیار ہیں۔ پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے (چلے آئے اور رات کو اس کے یہاں پہنچ کر) اسے قتل کر دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2768  
´دشمن کے پاس دھوکہ سے پہنچنا اور یہ ظاہر کرنا کہ وہ انہی میں سے ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو کعب بن اشرف ۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے، یہ سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، کہہ سکتے ہو، پھر انہوں نے کعب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2768]
فوائد ومسائل:

کعب بن اشرف یہودی کا تعلق بنو نضیرسے تھا۔
وہ بڑا مال داراور شاعر تھا۔
اسے مسلمانوں سے سخت عداوت تھی۔
اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتا رہتا تھا۔
اس نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کا دفاع کرنے کی بجائے مکہ جا کر قریش کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔
اور عہد شکنی بھی کی۔


دشمن پر وار کرنے کےلئے بناوٹی طور پر کچھ ایسی باتیں بنانا جو بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوں۔
وقتی طور پر جائز ہے۔
اور جنگ دھوکے (چال بازی) کا نام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2768   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2510  
2510. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے کون اٹھتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اسے میں قتل کرں گا، چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہاکہ ہم ایک یا دو وسق غلہ قرض لینا چاہتے ہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: تم اپنی بیویاں میرے پاس گروی رکھ دو۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنی بیویاں تیرے پاس گروی کیسے رکھ سکتے ہیں جبکہ تو عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے؟ اس نے کہا: اپنے بیٹوں کو رہن رکھ دو۔ انھوں نےکہا: ہم اپنے بیٹے کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایساکرنے سے لو گ انھیں طعنہ دیں گے کہ انھیں ایک یادو وسق اناج کے بدلے گروی رکھا گیاتھا؟ اور یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے البتہ ہم تیرے پا ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں، چنانچہ اس سے یہ وعدہ کرلیا کہ وہ اس کے پاس ہتھیار لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2510]
حدیث حاشیہ:
کعب بن اشرف مدینہ کا سرمایہ دار یہودی تھا۔
اسلام آنے سے اس کو اپنے سرمایہ دارانہ وقار کے لیے ایک بڑا دھچکا محسوس ہوا اور یہ شب و روز اسلام کی بیخ کنی کے لیے تدابیر سوچتا رہتا تھا۔
بدر میں جو کافر مارے گئے تھے ان کا نوحہ کرکے کفار مکہ کو نبی کریم ﷺ سے لڑنے کے لیے ابھارتا رہتا اور آپ کی شان میں ہجو اور تنقیص کے اشعار گھڑتا۔
اس ناپاک مشن پر وہ ایک دفعہ جنگ بدر کے بعد مکہ بھی گیا تھا۔
آخر آنحضرت ﷺ نے اس کی ناشائستہ حرکات سے تنگ آکر اس کا مسئلہ مجمع صحابہ میں رکھا جس پر حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔
انہوں نے آپ سے اجازت لی کہ میں اس کے پاس جاکر آپ کے بارے میں جو کچھ مناسب ہوگا، اس کے سامنے کہوں گا۔
اس کی اجازت دیجئے۔
آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی تو حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کعب کے رضائی بھائی ابونائلہ کو ساتھ لے کر رات کو اس کے پاس گئے۔
اس نے قلعہ کے اندر بلالیا اور جب ان کے پاس جانے لگا تو اس کی عورت نے منع کیا، وہ بولا کوئی غیر نہیں ہے۔
محمد بن مسلمہ ہے اور میرا بھائی ابونائلہ محمد بن مسلمہ کے ساتھ ہے اور بھی دو یا تین شخص تھے۔
ابوعبس بن جبر، حارث بن اوس، عباد بن بشر۔
محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا کہ میں کعب کے بال سونگھنے کے بہانے اس کا سرتھاموں گا۔
تم اس وقت جب دیکھو کہ میں سر کو مضبوط تھامے ہوا ہوں، اس کا سر تلوار سے قلم کردینا۔
پھر محمد بن مسلمہ ؓ جب کعب کے پاس آئے تو، یہی کہا کہ اے کعب! میں نے تمہارے سر جیسی خوشبو تمام عمر میں نہیں سونگھی۔
وہ کہنے لگا کہ میرے پاس ایک عورت ہے جو عرب کی ساری عورتوں سے زیادہ معطر ہے اور خوشبودار رہتی ہے۔
محمد بن مسلمہ ؓ نے اس کا سر سونگھنے کی اجازت مانگی اور کعب کے سر کو مضبوط تھام کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کردیا۔
انہوں نے تلوار سے سر اڑا دیا اور لوٹ کر دربار رسالت میں یہ بشارت پیش کی۔
آپ بہت خوش ہوئے اور ان مجاہدین اسلام کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کی کنیت ابوعبداللہ انصاری ہے اور یہ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے ہیں۔
کعب بن اشرف کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی بتلائی گئی ہے کہ اس نے اپنا عہد توڑ دیا تھا۔
اس طور پر وہ ملک کا غدار بن گیا اور بار بار غداری کی حرکات کرتا رہا۔
لہٰذا اس کی آخری سزا یہی تھی جو اسے دی گئی۔
حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کعب کے ہاں ہتھیار رہن رکھنے کا ذکر فرمایا۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2510   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2510  
2510. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے کون اٹھتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اسے میں قتل کرں گا، چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہاکہ ہم ایک یا دو وسق غلہ قرض لینا چاہتے ہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: تم اپنی بیویاں میرے پاس گروی رکھ دو۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنی بیویاں تیرے پاس گروی کیسے رکھ سکتے ہیں جبکہ تو عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے؟ اس نے کہا: اپنے بیٹوں کو رہن رکھ دو۔ انھوں نےکہا: ہم اپنے بیٹے کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایساکرنے سے لو گ انھیں طعنہ دیں گے کہ انھیں ایک یادو وسق اناج کے بدلے گروی رکھا گیاتھا؟ اور یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے البتہ ہم تیرے پا ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں، چنانچہ اس سے یہ وعدہ کرلیا کہ وہ اس کے پاس ہتھیار لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2510]
حدیث حاشیہ:
(1)
کعب بن اشرف ایک یہودی سردار تھا۔
جنگ بدر میں جب قریش کے بڑے بڑے طاغوت مارے گئے تو اس نے اہل مکہ کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔
اپنے اشعار میں مسلمان عورتوں کا مذاق اُڑاتا اور رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔
(2)
شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے زرہ گروی رکھنے کے بعد مذکورہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ زرہ ایک دفاعی ہتھیار ہے، جارحانہ نہیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جارحانہ ہتھیار بھی گروی رکھا جا سکتا ہے۔
اس استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ روایت میں ہتھیار گروی رکھنے کی بات بطور چال تھی، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن چال ہونے کے باوجود کعب بن اشرف کو یہ باور کرایا گیا کہ تیرے ساتھ جو معاملہ کر رہے ہیں یہ ہمارے ہاں جائز اور مباح ہے، اس پر معاملہ ہوا۔
امام بخاری ؒ نے اس سے استدلال کر لیا۔
(فتح الباري: 177/5) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے حق میں گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے اگرچہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو، لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقام پر علامہ عینی ؒ نے بڑی جراءت اور ہمت سے کہا:
میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والا مطلق طور پر واجب القتل ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔
(عمدة القاري: 30/5)
علمائے حق کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ حق کی پیروی کرتے ہیں، خواہ وہ حق ان کے اپنے کسی محبوب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کی محبت اور آپ کی اتباع کا یہی تقاضا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2510