سنن نسائي
كتاب الوصايا -- کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
7. بَابُ : إِذَا مَاتَ الْفَجْأَةَ هَلْ يُسْتَحَبُّ لأَهْلِهِ أَنْ يَتَصَدَّقُوا عَنْهُ
باب: کیا اچانک مر جانے والے کی طرف سے اس کے گھر والوں کا صدقہ کرنا مستحب ہے؟
حدیث نمبر: 3679
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ," أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَإِنَّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، فَتَصَدَّقَ عَنْهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ: میری ماں اچانک مر گئی، وہ اگر بول سکتیں تو صدقہ کرتیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 19 (2760)، (تحفة الأشراف: 17161)، موطا امام مالک/الاقضیة 41 (53)، مسند احمد (6/51) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعا و استغفار اور مالی عبادات مثلاً صدقہ و خیرات، حج و عمرہ وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، اس سلسلہ میں کتاب و سنت میں دلائل موجود ہیں، امام ابن القیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں بہت تفصیلی بحث کی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ تمام ائمہ اسلام اس امر پر متفق ہیں کہ میت کے حق میں جو بھی دعا کی جائے اور اس کی جانب سے جو بھی مالی عبادت کی جائے اس کا پورا پورا فائدہ اس کو پہنچتا ہے، کتاب وسنت میں اس کی دلیل موجود ہے اور اجماع سے بھی ثابت ہے، اس کی مخالفت کرنے والے کا شمار اہل بدعت میں سے ہو گا۔ البتہ بدنی عبادات کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3679  
´کیا اچانک مر جانے والے کی طرف سے اس کے گھر والوں کا صدقہ کرنا مستحب ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ: میری ماں اچانک مر گئی، وہ اگر بول سکتیں تو صدقہ کرتیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3679]
اردو حاشہ:
یہ شخص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ خود اور ان کی والدہ محترمہ انتہائی سختی تھے۔ وہ نیک اور سخی خاتون ان کی عدم موجودگی میں اچانک فوت ہوگئی تھیں۔ تفصیل آئندہ حدیث میں آرہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3679   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2717  
´کوئی شخص وصیت کیے بغیر مر جائے تو کیا اس کی طرف سے صدقہ دیا جائے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، اور وہ وصیت نہیں کر سکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (ملے گا)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2717]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کو مرنے کے بعد جس طرح ان اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے جو اس نے زندگی میں کیے تھے اور ان کےنیک اثرات بعد میں جاری رہے، اسی طرح اس صدقے وغیرہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے جو والدین کی وفات کے بعد اولاد ان کی طرف سے کرے۔

(2)
فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقے کےلیے یہ شرط نہیں کہ انہوں نے وصیت کی ہو۔

(3)
آج کل ایصال ثواب کے نام سے جو محفلیں برپا کی جاتی ہیں اور کھانے کھلائے جاتے ہیں ان کی حیثیت محض ایک رسم کی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاموشی سے کسی مستحق کی مناسب امداد کردی جائے۔

(4)
قرض اور دوسرے مالی حقوق کی ادائیگی میں جس طرح زندگی میں نیابت ممکن ہے، اسی طرح وفات کے بعد بھی کسی کا قرض دوسرا آدمی ادا کردے تو فوت شدہ شخص برئ الذمہ ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 820  
´وصیتوں کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہیں اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی۔ میرا اس کے بارے میں خیال ہے کہ اگر وہ کوئی گفتگو کرتیں تو صدقہ (ضرور) کرتیں۔ کیا انہیں ثواب ملے گا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 820»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوصايا، باب ما يستحب لمن توفي فجأة أن يتصدقوا عنه.....، حديث:2760، ومسلم، الزكاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، حديث:1004.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کی جانب سے صدقے کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور بغیر وصیت کے صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 820