سنن نسائي
كتاب الأيمان والنذور -- ابواب: قسم اور نذر کے احکام و مسائل
43. بَابُ : الاِسْتِثْنَاءِ
باب: قسم میں استثنا یعنی ”ان شاءاللہ“ کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3886
أَخْبَرَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ , فَقَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ , فَقَدِ اسْتَثْنَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی بات کی قسم کھائے، پھر وہ ان شاءاللہ کہے تو اس نے استثناء کر لیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأیمان 7 (1532)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 6 (2104)، (تحفة الأشراف: 13523)، مسند احمد (2/309) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی وہ قسم توڑنے والا نہیں ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2104  
´قسم میں ان شاءاللہ کہنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم کھائی، اور «إن شاء الله» کہا، تو اس کا «إن شاء الله» کہنا اسے فائدہ دے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2104]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
ان شاء اللہ کہنے سے قسم ختم ہو جاتی ہے پھر اگر وہ کام نہ کیا جائے جس کا ذکر کیا گیا تھا تو قسم توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا اور کفارہ نہیں دینا پڑے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قسم تاکیدی عزم ظاہر کرنے کے لیے ہوتی ہے اور ان شاء اللہ کا مطلب ہے اگر اللہ نے چاہا تو میں ایسا کروں گا۔
اور مستقبل کے کاموں میں بندے کو اللہ کی مرضی معلوم نہیں ہوتی تو اس میں گویا اس عزم کی نفی ہے اور یہ احتمال آ گیا کہ ممکن ہے میں یہ کام کرسکوں یا نہ کرسکوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2104   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1532  
´قسم میں ان شاءاللہ کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم کھائی اور ان شاءاللہ کہا، وہ «حانث» نہیں ہوا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1532]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس نے قسم نہیں توڑی،
اور ایسی قسم توڑنے سے اس پر کفارہ نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1532