سنن نسائي
كتاب المزارعة -- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
1. بَابُ : الثَّالِثُ مِنَ الشُّرُوطِ فِيهِ الْمُزَارَعَةُ وَالْوَثَائِقُ
باب: (سابقہ دو شرط قسم اور نذر کے ذکر کے بعد) تیسری شرط کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3892
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قِرَاءَةً، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: عَبْدٌ أُؤَاجِرُهُ سَنَةً بِطَعَامِهِ، وَسَنَةً أُخْرَى بِكَذَا وَكَذَا. قَالَ:" لَا بَأْسَ بِهِ وَيُجْزِئُهُ اشْتِرَاطُكَ حِينَ تُؤَاجِرُهُ أَيَّامًا أَوْ آجَرْتَهُ وَقَدْ مَضَى بَعْضُ السَّنَةِ"، قَالَ: إِنَّكَ لَا تُحَاسِبُنِي لِمَا مَضَى.
ابن جریج کہتے ہںي کہ میں نے عطا سے کہا: اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے)؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لیے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت (مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں؟ عطاء نے کہا: تم گزرے ہوئے دن کو شمار نہیں کرو گے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19075) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3892  
´(سابقہ دو شرط قسم اور نذر کے ذکر کے بعد) تیسری شرط کا ذکر۔`
ابن جریج کہتے ہںي کہ میں نے عطا سے کہا: اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے)؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لیے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت (مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں؟ عطاء نے کہا: تم گزرے ہوئے دن ک [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3892]
اردو حاشہ:
مندرجہ بالا روایات ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوکر کی اجرت معلوم اور معین ہونی چاہیے یا تو نقد‘ یعنی روپے پیسے کی صورت میں‘ یا خوراک وغیرہ کی صورت میں‘ نیز کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو نوکر کے لیے نقصان دہ ہو۔ مزارعت‘ یعنی بٹائی میں بھی یہی صورت ہے کہ اگر مزارع کی اجرت معین ہوجائے‘ مثلاً: تجھے پیداوار کا نصف یا تہائی وغیرہ ملے گا اور کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو مزارع کے لیے نقصان دہ ہو تو مزارعت (بٹائی) درست ہوگی۔ ہاں اگر اجرت نہ سمجھا جائے۔ اس طرح تو خوراک والی اجرت بھی مجہول ہوگی کیونکہ کسی کی خوراک کم ہوتی ہے کسی کی زیادہ۔ ایک ہی شخص کبھی کم کھاتا ہے کبھی زیادہ۔ اس کے باوجود یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3892