Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب تحريم الدم
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
16. بَابُ : الْحُكْمِ فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم
باب: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے والے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4076
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنبَرِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُدَامَةَ بْنِ عَنَزَةَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: أَغْلَظَ رَجُلٌ لِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، فَقُلْتُ: أَقْتُلُهُ. فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ:" لَيْسَ هَذَا لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سخت کلامی کی تو میں نے کہا کہ کیا میں اسے قتل کر دوں؟ تو آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا: یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نہیں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 2 (4363)، (تحفة الأشراف: 6621)، مسند احمد (1/9، 10)، ویأتي فیما یلي: 4077- 4082 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے اور سب و شتم پر کسی کو قتل کیا جائے گا، آپ کے سوا کسی کا یہ مرتبہ و مقام نہیں کہ اس کو سب و شتم کرنے والے کو قتل کی سزا دی جائے، ہاں تعزیر کی جا سکتی ہے، جو معاملہ کی نوعیت اور قاضی (جج) کی رائے پر منحصر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4076 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4076  
اردو حاشہ:
(1) خلیفۂ بلا فصل، یعنی خلیفۂ اول کے فرمان سے صاف معلوم ہو گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کو گالی بکنے والا واجب القتل ہے۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کو یا کسی مسلمان حکمران کو گالی دینے والا قتل کا مستحق نہیں کیونکہ نبی ﷺ کے فرمان کی رو سے وہ فاسق ہے، کافر نہیں۔ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ۔ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی، مثلاً: قید، کوڑے، جلا وطنی وغیرہ۔
(3) اس حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ خلیفۂ بلافصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی متحمل مزاج، باحوصلہ اور بہت زیادہ درگزر کرنے اور معاف کرنے والے انسان تھے۔
(4) حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ خلیفۂ رسول کی محبت میں اس قدر سرشار تھے کہ ان کی ذات کے متعلق سوء ادبی کے مرتکب شخص کا سر تن سے جدا کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4076   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4079  
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر غصہ ہوئے، میں نے کہا: اگر آپ حکم دیں تو میں کچھ کروں، انہوں نے کہا: سنو، اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا یہ مقام نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4079]
اردو حاشہ:
یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے کہنے سے کسی کو قتل کر دیا جائے، بغیر تحقیق کے کہ وہ قتل کا مستحق ہے یا نہیں۔ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے کہ آپ جو بھی فرمائیں، اس پر بلاتحقیق عمل کیا جائے گا۔ دوسرے ہر شخص کی بات کی تحقیق کی جائے گی۔ صحیح ہو تو عمل کیا جائے گا ورنہ چھوڑ دیا جائے گا، خواہ وہ خلیفہ اور حاکم ہو یا کوئی کمانڈر۔ دوسرے معنیٰ پیچھے گزر چکے ہیں کہ صرف رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے کی سزا قتل ہے، کسی اور کا یہ مرتبہ نہیں، خواہ وہ صحابی ہی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4079   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4080  
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک آدمی پر سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ ان کا رنگ بدل گیا، میں نے کہا: اے رسول اللہ کے خلیفہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں، اچانک دیکھا گویا آپ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو، چنانچہ اس شخص پر آپ کا غصہ ختم ہو گیا اور کہا: ابوبرزہ! تمہاری ماں تم پر روئے، یہ مقام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا ہے ہی نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4080]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ سے مذکورہ حدیث زید نے بیان کی تو عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة عَنْ أَبِیْ نَضْرَة کہا۔ لیکن عمرو بن مرہ سے یہی روایت امام شعبہ نے بیان کی تو فرمایا: عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَصْرٍ، یعنی ابو نضرہ (بالضاد) کے بجائے ابو نصر (بالصاد) کہا، نیز اس میں ۃ، یعنی جو حالت وقف میں ہ پڑھی جاتی ہے، وہ بھی بیان نہیں کی، صرف ابو نصر کہا اور بس۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ شعبہ نے زید کی مخالفت کی ہے اور وہ زید سے احفظ و اتقن ہے، اس لیے شعبہ کی بات درست ہے اور صحیح لفظ ابو نصر ہے، جبکہ زید کی بات مبنی برخطا ہے۔ و اللہ أعلم۔
(2) رنگ بدل گیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی بردبار اور متحمل مزاج شخص تھے۔ جلدی اور زیادہ غصے میں نہیں آتے تھے۔ اس شخص نے کوئی بڑی غلطی یا گستاخی کی ہو گی جس پر اس قدر غصہ آ گیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
(3) ٹھنڈا پانی قربان جائیے خلیفۂ رسول پر کہ غلط بات سن کر حالت بدل گئی، حالانکہ ظاہراً یہ بات ان کے حق میں تھی۔ اگر کوئی خوشامد پسند بادشاہ ہوتا تو اس کا پارہ اور چڑھتا مگر یہ خلیفۂ رسول تھے۔ فوراً ناراضی کا اظہار فرمایا کہ میرے بارے میں غلو کیوں کیا؟ یاد رہے خلیفۂ رسول کا لقب صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ خاص تھا، باقی تمام خلفاء راشدین کو امیر المومنین کہا جاتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ انہوں نے خلافت رسول کا حق ادا کر دیا۔ جب تک اُس کمزور جان میں جان رہی، رسول اللہ ﷺ کے دین میں ذرہ بھر تبدیلی برداشت نہ کی۔
(4) تیری ماں تجھے گم پائے یعنی تو مر جائے۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اہل عرب میں اس کا استعمال عام ہے۔ اس جگہ اس کا مقصد اظہار ناراضی ہے نہ کہ بد دعا۔ عرف عام میں ایسا ہوتا ہے۔
(5) یہ مرتبہ اور حق نہیں کہ اس کی ناراضی کسی کے قتل کا موجب ہو۔ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے کہ جس پر ناراض ہو جائیں، اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہے اور اجازت ملنے پر اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ میری تیری ناراضی کا یہ درجہ نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4080   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4081  
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے ایک شخص کو کچھ سخت سست کہا تو اس نے جواب میں ویسا ہی کہا، میں نے کہا: کیا اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا یہ مقام نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ابونصر کا نام حمید بن ہلال ہے اور اسے ان سے یونس بن عبید نے مسنداً روایت کیا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4081]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ اس میں یونس بن عبید نے عمرو بن مرہ کی مخالفت کی ہے، اور وہ اس طرح کہ ابو نصر سے یہ حدیث عمرو بن مرہ نے بیان کی تو کہا: سَمِعْتُ اَبَا نَصْرٍ یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْ بَرْزَة، اس طرح یہ روایت منقطع بنتی ہے اور یہی حدیث یونس بن عبید نے بیان کی تو کہا: عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیْرِ عَنْ اَبِیْ بَرْزَة الْأَسْلَمِیِّ، یعنی یونس بن عبید نے حمید بن ہلال (ابو نصر) اور حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے درمیان عبداللہ بن مطرف کا واسطہ بیان کیا ہے، لہٰذا اس طرح سند متصل قرار پاتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4081   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4082  
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، آپ ایک مسلمان آدمی پر غصہ ہوئے اور آپ کا غصہ سخت ہو گیا، جب میں نے دیکھا تو عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول! کیا میں اس کی گردن اڑا دوں؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں نے یہ ساری گفتگو بدل کر دوسری گفتگو شروع کر دی، پھر جب ہم جدا ہوئے تو مجھے بلا بھیجا اور کہا: ابوبرزہ! تم نے کیا کہا؟ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ بھول چکا تھا، میں نے کہا: مجھے یاد دلائ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4082]
اردو حاشہ:
یہ تفصیلی روایت ہے جس سے اوپر والی احادیث کے تمام ابہامات دور ہو جاتے ہیں۔ مسئلۂ باب کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔ دیکھئے، حدیث: 4075) اس مسئلے کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک مستقل کتاب موجود ہے۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول یہ بہت مفید اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ اس میں حضرت امام نے تفصیلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی بکنے والا واجب القتل ہے، خواہ مسلمان ہو یا کافر۔ ذمی کو تو حکومت علانیہ قتل کرے گی اور غیر مسلم ملک کے کافر کو خفیہ قتل کروایا جائے گا۔ یا جیسے بھی ممکن ہو۔ حکومت کرے یا کوئی عام مسلمان۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4082   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4363  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کا حکم۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہ ایک شخص پر ناراض ہوئے اور بہت سخت ناراض ہوئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول کے خلیفہ! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن مار دوں، میری اس بات نے ان کے غصہ کو ٹھنڈا کر دیا، پھر وہ اٹھے اور اندر چلے گئے، پھر مجھ کو بلایا اور پوچھا: ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: میں نے کہا تھا: مجھے اجازت دیجئیے، میں اس کی گردن مار دوں، بولے: اگر میں تمہیں حکم دے دیتا تو تم اسے کر گزرتے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، ضرور، بولے: نہیں، قسم اللہ کی! محمد صلی ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4363]
فوائد ومسائل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخصیت کا یہ مقام ومرتبہ نہیں کہ اس کی مخالفت یا بے ادبی کرنے والے کی جان ماردی جائے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ ہو یا عزیزومحترم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4363   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:6  
ابوبرزہ بیان کرتے ہیں: میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا وہ اپنے ساتھیوں میں سے ایک صاحب پر ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے، میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول کے خلیفہ! یہ کون شخص ہے، جس پر آپ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟ میں نے جواب دیا: میں اس کی گردن اڑا دیتا ہوں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر: 6]
فائدہ:
یہ مفصل حدیث سنن ابی داود: 4363 میں ہے، جس سے مفہوم حدیث واضح ہو جاتا ہے، وہ درج ذیل ہے:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں:
میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہ کسی آدمی پر ناراض ہو رہے تھے، وہ اس پر بہت زیادہ ناراض ہوئے۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن مار ڈالوں؟ تو میری اس بات نے ان کا سارا غصہ ذائل کر دیا۔ پھر وہ وہاں سے اٹھ کر گھر چلے گئے اور مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا: تم نے ابھی ابھی کیا کہا تھا؟ میں نے کہا کہ میں نے کہا تھا: مجھے اجازت دیجیے میں اس کی گردن مارتا ہوں، انھوں نے فرمایا: اگر میں تمھیں ایسے کہہ دیتا تو کیا واقعی تم ایسا کر گزرتے؟ میں نے کہا: ہاں، انھوں نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی انسان کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کوئی حق نہیں کہ کسی کو قتل کرائیں، سوائے اس کے کہ تین میں سے کوئی ایک بات ہو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے: ایمان کے بعد کفر، شادی شدہ ہونے کے بعد زنا اور کسی جان کو کسی جان کے بدلے قتل کرنا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حق تھا کہ وہ کسی کو قتل کر ڈالیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سختی سے قرآن و حدیث پر کاربند تھے، اور مختصر حدیث کی شرح میں مفصل حدیث سے بہت زیادہ مدد ملتی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 6