سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
29. بَابُ : تَحْرِيمِ الْقَتْلِ
باب: قتل کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4130
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا ۱؎ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 77 (4402)، الأدب 95 (6043)، الحدود 9 (6785)، الدیات 2 (6868)، الفتن 8 (7077)، صحیح مسلم/الإیمان 29 (66، 4403)، سنن ابی داود/السنة 16 (4686)، سنن ابن ماجہ/الفتن5(3943)، (تحفة الأشراف: 7418) مسند احمد (2/85، 87، 104) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی کافروں کی طرح نہ ہو جانا کہ کفریہ اعمال کرنے لگو، جیسے ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4130  
´قتل کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا ۱؎ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4130]
اردو حاشہ:
(1) مسلمانوں سے لڑنا کافروں کا کام ہے۔ اگر مسلمان مسلمانوں سے لڑنے لگیں تو کافروں کے مشابہ ہو گئے، نیز اس سے کافروں کا مقصد پورا ہو گیا۔ انہیں لڑنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ جو شخص باہیم اختلافات کی بنا پر لڑائی کو جائز سمجھتا ہے، وہ حقیقتاً کافر ہے کیونکہ وہ ایک حرام کام کو حلال قرار دیتا ہے۔ اگر ویسے ہی جذبات میں آ کر لڑائی لڑنے لگا تو پھر کافر تو نہ ہو گا مگر اس کا یہ کام کافروں کے مشابہ ہو گا۔ ایسے میں وہ اگر کسی کو قتل کرے گا تو اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا۔
(2) کبھی کبھی غلط فہمی کی بنا پر جنگ چھڑ جاتی ہے یا شرپسند عناصر فریقین میں لڑائی بھڑکا دیتے ہیں تو اس سے فریقین کافر نہ ہوں گے جیسے جنگ جمل اور صفین میں ہوا۔ حضرت عائشہ، زبیر، طلحہ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ناحق قتل کا قصاص چاہتے تھے مگر قاتلین عثمان اپنی گردن بچانے کے لیے جنگ برپا کر دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس انداز کے مطالبے کو بغاوت سے تعبیر کرتے تھے اور بغاوف فرو کرنے کو سرکاری فریضہ سمجھتے تھے مگر معاملہ اتنا سادہ نہ تھا۔ غیر مسلموں کی سازشیں کافی گہری تھیں۔ فریقین میں ایسی غلط فہمیاں پیدا ہو چکی تھیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں لڑائی ہوتی گئی اگرچہ فریقین نیک نیت تھے۔ ان کی نیک نیتی کے لیے ان کا صحابی ہونا ہی کافی ہے۔ صحابہ عام لوگ نہیں تھے بلکہ ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى﴾ (الحجرات: 39:3) وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب شدہ افراد تھے، اس لیے ان کے بارے میں انتہائی اچھا گمان رکھنا ضروری ہے، ورنہ اپنے ایمان کا خطرہ ہے۔ وہ لوگ یقینا جنتی ہیں۔ ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کی نام بنام بشارتیں موجود ہیں۔ ان سے بدگمانی رکھنے والا ایمان سے بے بہرہ ہے۔ رضي اللہ عنهم و أرضاهم۔
(3) کافر نہ بن جانا کافر کے ایک معنیٰ ناشکرا بھی ہیں۔ آپس میں لڑنا نعمت ایمان کی ناشکری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4130   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4686  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4686]
فوائد ومسائل:
اعمال سئیہ سےایمان میں کمی آتی ہے، مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا بد ترین اعمال میں سے ہے، یہ ایمان کی کمی کی دلیل ہے جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن اس وجہ سے انسان ملت سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4686