سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
29. بَابُ : تَحْرِيمِ الْقَتْلِ
باب: قتل کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4131
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ لَا يُؤْخَذُ الرَّجُلُ بِجِنَايَةِ أَبِيهِ، وَلَا جِنَايَةِ أَخِيهِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ، وَالصَّوَابُ مُرْسَلٌ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو، آدمی کو نہ اس کے باپ کے گناہ کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ غلط ہے (کہ یہ متصل ہے) صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 7452)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4132-4134) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی: جس سند میں مسروق ہیں اس سند سے اس روایت کا مرسل ہونا ہی صواب ہے، مسروق کے واسطے سے جس نے اس روایت کو متصل کر دیا ہے اس نے غلطی کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے یہ حدیث ہی مرسل ہے، دیگر محدثین کی سندیں متصل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4131  
´قتل کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو، آدمی کو نہ اس کے باپ کے گناہ کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ غلط ہے (کہ یہ متصل ہے) صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4131]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ مذکورہ روایت بعض رواۃ نے متصل بیان کی ہے اور بعض نے مرسل۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا متصل ہونا درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہی ہے، اس لیے کہ متصل بیان کرنے والے راوی شریک اور ابوبکر بن عیاش ہیں اور وہ دونوں اعمش سے بیان کرتے ہیں۔ اعمش سے یہ روایت ابوبکر بن عیاش اور شریک کے علاوہ ابو معاویہ اور یعلیٰ نے بھی بیان کی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شریک کثیر الخطاء (بہت غلطیاں کرنے والا) راوی ہے، دوسرے یہ کہ اس نے اور ابوبکر بن عیاش نے ابومعاویہ کی مخالفت کی ہے، حالانکہ ابو معاویہ، اعمش کے تمام شاگردوں میں سے اثبت راوی ہے، سوائے سفیان ثوری کے۔ ابو معاویہ نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ یعلیٰ بن عبید نے (اس کے مرسل بیان کرنے میں) ابو معاویہ کی متابعت بھی کی ہے۔
(2) کافر نہ بن جانا یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ تم میرے بعد مرتد ہو کر کافر نہ بن جانا ورنہ تمہاری حالت وہی ہو جائے گی جو اسلام سے پہلے تھی کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ گے اور آپس میں قتل و قتال کا دور دورہ ہو گا۔ و اللہ أعلم۔
(3) نہ پکڑا جائے گا یہ اسلام کا سنہری اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ خود ہے۔ کسی کے جرم میں اس کے بھائی، باپ یا بیٹے کو نہیں پکڑا جا سکتا الا یہ کہ ان کا اس جرم میں دخل ثابت ہو۔ جاہلیت میں یہ عام دستور تھا کہ قاتل کی بجائے اس کے کسی رشتے دار بلکہ اس کے قبیلے کے کسی بھی فرد کا قتل جائز سمجھا جاتا۔ ایک شخص کے جرم کی وجہ سے اس کا پورا قبیلہ مجرم بن جاتا تھا، اس لیے قتل و قتال عام تھا۔ اور ایک قتل پر بسا اوقات سینکڑوں قتل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے اس بے اصولی کی نفی اور مذمت فرمائی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4131   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4686  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4686]
فوائد ومسائل:
اعمال سئیہ سےایمان میں کمی آتی ہے، مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا بد ترین اعمال میں سے ہے، یہ ایمان کی کمی کی دلیل ہے جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن اس وجہ سے انسان ملت سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4686