سنن نسائي
كتاب العقيقة -- کتاب: عقیقہ کے احکام و مسائل
4. بَابُ : كَمْ يَعِقُّ عَنِ الْجَارِيَةِ
باب: لڑکی کی طرف سے کتنی بکریاں ہوں؟
حدیث نمبر: 4222
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ أَسْأَلُهُ عَنْ لُحُومِ الْهَدْيِ؟ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" عَلَى الْغُلَامِ شَاتَانِ , وَعَلَى الْجَارِيَةِ شَاةٌ لَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا".
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حدیبیہ میں ہدی کے گوشت کے بارے میں پوچھنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، تو میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکا ہونے پر دو بکریاں ہیں اور لڑکی پر ایک بکری، نر ہوں یا مادہ اس سے تم کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الضحایا 21 (2835، 2836)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3162مختصراً)، (تحفة الأشراف: 18347)، سنن الدارمی/الأضاحي 9 (2011) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4222  
´لڑکی کی طرف سے کتنی بکریاں ہوں؟`
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حدیبیہ میں ہدی کے گوشت کے بارے میں پوچھنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، تو میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکا ہونے پر دو بکریاں ہیں اور لڑکی پر ایک بکری، نر ہوں یا مادہ اس سے تم کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب العقيقة/حدیث: 4222]
اردو حاشہ:
فرماتے سنا یعنی اپنے سوال کے جواب کے علاوہ عقیقے کا مسئلہ فرماتے ہوئے سنا۔ مذکر ہوں یا مؤنث  لڑکے کی طرف سے مؤنث اور لڑکی کی طرف سے مذکریا ملے جلے جانور ذبح کیے جاسکتے ہیں۔ ثواب میں کوئی فرق نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4222   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3162  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3162]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بچے یا بچی کی ولادت پر عقیقہ کرنا سنت ہے۔
یہ اولاد کی نعمت پر اللہ کے شکر کا اظہار ہے، تاہم یہ فرض یا واجب نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے:
'جس کے ہاں بچہ پیدا ہواگروہ اپنے بچے کا عقیقہ کرناچاہے تو کرلے۔ (موطا إمام مالك، العقيقة، ماجاء في العقيقة، حديث: 1 وصحيح سنن أبي داؤد للألباني، حديث: 2842)

(2) (مكافئتان)
كی تشریح میں مختلف اقوال ہیں:

(ا)
ہم عمر اور ہم جنس۔

(ب)
ذبح ہونے میں برابر، یعنی دونوں اکھٹی ذبح کی جائیں۔ (مثلاً یہ نہ ہو کہ ایک صبح کو ذبح کی جائے اور دوسری شام کو)

(ج)
قربانی کے جانور کے برابر۔
حافظ ابن حجر ؒنے دوسرے قول کواچھا قراردیا ہے۔ (فتح الباری: 9/ 733)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3162   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1169  
´عقیقہ کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے، احمد اور چاروں نے ام کرز کعبیہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1169»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، حديث:1513، وابن حبان (الموارد)، حديث:1058، وحديث أم كرز: أخرجه أبوداود، الضحايا، حديث:2834، والترمذي، الأضاحي، حديث:1516، والنسائي، القيقة، حديث:4221، وابن ماجه، الذبائح، حديث:3162، وأحمد:6 /422 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
مذکورہ روایت میں بچے کی طرف سے دو جانور اور بچی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا ذکر ہے جبکہ گزشتہ روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک جانور عقیقہ کے طور پر ذبح کیا۔
ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں بلکہ علمائے کرام اس کی بابت فرماتے ہیں کہ افضل اور مستحب یہی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے‘ تاہم لڑکے کی طرف سے بھی ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث سے ثابت ہے۔
بنابریں اگر کسی کے پاس دو جانور نہ ہوں تو لڑکے کی طرف سے بھی عقیقے میں ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راوئ حدیث «ام کُرز کعبیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ بنو خزاعہ قبیلے سے تھیں‘ اس لیے خزاعیہ کہلائیں۔
شرف صحابیت سے مشرف تھیں۔
ان سے کئی احادیث منقول ہیں۔
کرز کے کاف پر ضمہ اور را ساکن ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1169   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2834  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: (عقیقہ) میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد نے «مكافئتان» کے معنی یہ کئے ہیں کہ دونوں (عمر میں) برابر ہوں یا قریب قریب ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2834]
فوائد ومسائل:

وہ جانور جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے۔
اسے عقیقہ کہتے ہیں۔
لغت میں ا س کے معنی ہیں۔
کاٹنا اور شق کرنا، یہ لفظ بچوں کے سر کے بالوں پر بھی بولا جاتا ہے۔
اور اسی مناسبت سے اس ذبیحہ کو عقیقہ کہتے ہیں۔
فقہی طور پر اس کا حکم سنت مؤکدہ کا ہے۔


(مکافئتان) کا تقاضا ہے۔
کہ دونوں جانوروں کی نوع بھی ایک ہو، یعنی دونوں بکریاں ہوں۔
یا بھیڑیں یا مینڈھے یہ نہیں کہ ایک بکری ہو اور دوسری بھیڑ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2834