صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2567
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ لِعُرْوَةَ ابْنَ أُخْتِي" إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ، ثُمَّ الْهِلَالِ ثَلَاثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوقِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ، فَقُلْتُ: يَا خَالَةُ، مَا كَانَ يُعِيشُكُمْ؟ قَالَتْ: الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَكَانُوا يَمْنَحُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهِمْ فَيَسْقِينَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے یزید بن رومان سے، وہ عروہ سے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ نے عروہ سے کہا، میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں (یہ حال تھا کہ) ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا دیکھتے، پھر تیسرا دیکھتے، اسی طرح دو دو مہینے گزر جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں (کھانا پکانے کے لیے) آگ نہ جلتی تھی۔ میں نے پوچھا۔ خالہ اماں! پھر آپ لوگ زندہ کس طرح رہتی تھیں؟ آپ نے فرمایا کہ صرف دو کالی چیزوں کھجور اور پانی پر۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند انصاری پڑوسی تھے۔ جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بھی ان کا دودھ تحفہ کے طور پر پہنچا جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمیں بھی پلا دیا کرتے تھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2356  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی معاشی زندگی کا بیان۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیا اور کہا کہ میں کسی کھانے سے سیر نہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔ میں نے سوال کیا: ایسا کیوں؟ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اللہ کی قسم! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دو بار کبھی سیر نہیں ہوئے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2356]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سن دمیں مجالد بن سعید ضعیف ہیں،
اگلی روایت صحیح ہے جس کا سیاق اس حدیث کے سیاق سے قدرے مختلف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2356   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2567  
2567. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عروہ ؓ سے فرمایا: اے میرے بھانجے! ہم چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند دیکھتے، اس طرح دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں سے کسی میں آگ نہیں جلتی تھی۔ میں نے عرض کیا: خالہ جان!ایسے حالات میں آپ کا گزر اوقات کیا ہوتا تھا؟ انھوں نےفرمایا: دو کالی چیزوں: کھجور اور پانی پر (گزارہ کرتے تھے)، نیز رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ بھیجتے توآپ ہمیں بھی پلاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2567]
حدیث حاشیہ:
دودھ بطور تحفہ بھیجنا اس سے ثابت ہوا۔
دو مہینے میں تین چاند اس طرح دیکھتیں کہ پہلا چاند مہینے کے شروع ہونے پر دیکھا‘ پھر دوسرا چاند اس کے ختم پر تیسرا چاند دوسرے مہینے کے ختم پر۔
کالی چیزوں میں پانی کو بھی شامل کر جیا‘ حا لانکہ پانی کالا نہیں ہوتا۔
لکن عرب لوگ تثنیہ ایک چیز کے نام سے کر دیتے ہیں۔
جیسے شمسین قمرین چاند سورج دونوں کو کہتے ہیں اس طرح ابیضین دودھ اور پانی دونوں کو کہہ دیتے ہیں اور صرف دودھ ابیض یعنی سفید ہوتا ہے۔
پانی کا تو کوئی رنگ نہیں ہوتا۔
اس حدیث سے دودھ کا بطور تحفہ و ہدیہ و ہبہ پیش کرنا ثابت ہوا۔
فوائد کے لحاظ سے یہ بہت ہی بڑا ہبہ ہے جو ایک انسان کو پیش کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2567   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2567  
2567. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عروہ ؓ سے فرمایا: اے میرے بھانجے! ہم چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند دیکھتے، اس طرح دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں سے کسی میں آگ نہیں جلتی تھی۔ میں نے عرض کیا: خالہ جان!ایسے حالات میں آپ کا گزر اوقات کیا ہوتا تھا؟ انھوں نےفرمایا: دو کالی چیزوں: کھجور اور پانی پر (گزارہ کرتے تھے)، نیز رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ بھیجتے توآپ ہمیں بھی پلاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2567]
حدیث حاشیہ:
(1)
کھجور کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ کالی ہے کیونکہ مدینہ طیبہ کی کھجور سیاہ ہی ہوتی ہے لیکن پانی کو تغليباً سیاہ کہا گیا ہے۔
عربی زبان میں بسا اوقات غالب شے کا لحاظ کیا جاتا ہے۔
کھجور اصل چیز ہے وہ اگر کالی ہے تو پانی کو بھی کالا کہہ دیا۔
(2)
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے انصاری پڑوسی آپ کو دودھ بھیجتے تھے۔
اس بنا پر دودھ کا بطور تحفہ و ہدیہ بھیجنا ثابت ہوا۔
فوائد کے اعتبار سے یہ بہت قیمتی تحفہ ہے جو ایک انسان دوسرے کو پیش کرتا ہے۔
(3)
حدیث سے معلوم ہوا کہ مال دار شخص غریب آدمی سے اچھا برتاؤ کرے اور اسے اپنے مال سے عطیہ کرتا رہے، نیز انسان کو چاہیے کہ وہ تھوڑی چیز پر قناعت کرے۔
قناعت سے انسان کی عزت و آبرو اور خودداری محفوظ رہتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2567