صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
3. بَابُ مَنِ اسْتَوْهَبَ مِنْ أَصْحَابِهِ شَيْئًا:
باب: جو شخص اپنے دوستوں سے کوئی چیز بطور تحفہ مانگے۔
وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا.
ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگانا (اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا)۔
حدیث نمبر: 2569
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إِلَى امْرَأَةٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَكَانَ لَهَا غُلَامٌ نَجَّارٌ، قَالَ لَهَا: مُرِي عَبْدَكِ فَلْيَعْمَلْ لَنَا أَعْوَادَ الْمِنْبَرِ، فَأَمَرَتْ عَبْدَهَا، فَذَهَبَ فَقَطَعَ مِنَ الطَّرْفَاءِ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا، فَلَمَّا قَضَاهُ أَرْسَلَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ قَدْ قَضَاهُ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلِي بِهِ إِلَيَّ، فَجَاءُوا بِهِ، فَاحْتَمَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَهُ حَيْثُ تَرَوْنَ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان، کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجرہ عورت کے پاس (اپنا آدمی) بھیجا۔ ان کا ایک غلام بڑھئی تھا۔ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے غلام سے ہمارے لیے لکڑیوں کا ایک منبر بنانے کے لیے کہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا۔ وہ غابہ سے جا کر جھاؤ کاٹ لایا اور اسی کا ایک منبر بنا دیا۔ جب وہ منبر بنا چکے تو اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ منبر بن کر تیار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلوایا کہ اسے میرے پاس بھجوا دیں۔ جب لوگ اسے لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اٹھایا اور جہاں تم اب دیکھ رہے ہو۔ وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھا۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 740  
´منبر پر نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوحازم بن دینار کہتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ لوگ منبر کی لکڑی کے بارے میں بحث کر رہے تھے کہ وہ کس چیز کی تھی؟ ان لوگوں نے سہیل رضی اللہ عنہ اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ یہ منبر کس لکڑی کا تھا، میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا تھا جس دن وہ رکھا گیا، اور جس دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پہل اس پر بیٹھے (ہوا یوں تھا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت (سہل رضی اللہ عنہ نے اس کا نام لیا تھا) کو کہلوا بھیجا کہ آپ اپنے غلام سے جو بڑھئی ہے کہیں کہ وہ میرے لیے کچھ لکڑیوں کو اس طرح بنا دے کہ جب میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کروں تو اس پر بیٹھ سکوں، تو اس عورت نے غلام سے منبر بنانے کے لیے کہہ دیا، چنانچہ غلام نے جنگل کے جھاؤ سے اسے تیار کیا، پھر اسے اس عورت کے پاس لے کر آیا تو اس نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے یہاں رکھا گیا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس پر چڑھے، اور اس پر نماز پڑھی، آپ نے اللہ اکبر کہا، آپ اسی پر تھے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور آپ اسی پر تھے، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کے پایوں کے پاس سجدہ کیا، پھر آپ نے دوبارہ اسی طرح کیا، تو جب آپ فارغ ہو گئے، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگو! میں نے یہ کام صرف اس لیے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کر سکو، اور (مجھ سے) میری نماز سیکھ سکو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 740]
740 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ نفل نماز تھی اور نفل نماز میں کافی وسعت ہوتی ہے۔ اگرچہ منبر نماز کے لیے نہیں بنایا گیا تھا مگر آپ نے مناسب خیال فرمایا کہ اس کا افتتاح نماز سکھانے سے ہو۔ اس کا یہ فائدہ مقصود تھا کہ لوگ آپ کے اونچا ہونے کی وجہ سے آپ کو بخوبی دیکھ سکیں اور نماز کا طریقہ سیکھ لیں۔ آپ نے سب سے بلند سیڑھی پر کھڑے ہو کر نماز ادا فرمائی۔ دیکھیے: [فتح الباري: 514/2، شرح حديث: 917]
➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کبھی رش یا جگہ کی تنگی یا ناہمواری کی وجہ سے نماز کا کوئی رکن کچھ ہٹ کر یا نیچے اتر کر یا کچھ آگے پیچھے چل کر ادا کرنا پڑے تو نفل نماز میں گنجائش ہے، البتہ فرض نماز میں اضطراری حالت کے علاوہ ایسے نہ کیا جائے۔
➌ کہا گیا ہے کہ عورت کا نام سہلہ اور غلام کا نام میمون تھا۔ دیکھیے: [فتح الباري: 512/2، شرح حديث: 917]
➍ صحیح روایت میں صراحت ہے کہ منبر بنانے کی پیش کش اس عورت نے خود کی تھی۔ آپ نے منظوری یا یاددہانی کا پیغام بھیجا۔
➎ سجدہ کرنے کے لیے آپ کو کئی قدم اٹھانے پڑے کیونکہ سب سے اوپر والی سیڑھی سے اتر کر نیچے آنا اور مزید پیچھے ہٹ کر منبر کی قریب ترین جگہ پر سجدہ کرنا کئی قدموں کا متقاضی ہے، لہٰذا قدموں کی درجہ بندی کرنا کہ اگر مسلسل تین قدم اٹھائیں تو نماز باطل ہو جائے گی، درست نہیں۔ اس کی بجائے عمل کو ضرورت کے ساتھ مقید کرنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 740   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1080  
´منبر بنانے کا بیان۔`
ابوحازم بن دینار بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ لوگ منبر کے سلسلے میں جھگڑ رہے تھے کہ کس لکڑی کا تھا؟ تو انہوں نے سہل بن سعد سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: قسم اللہ کی! میں جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا تھا اور میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا جب وہ رکھا گیا اور جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے پاس- جس کا سہل نے نام لیا- یہ پیغام بھیجا کہ تم اپنے نوجوان بڑھئی کو حکم دو کہ وہ میرے لیے چند لکڑیاں ایسی بنا دے جن پر بیٹھ کر میں لوگوں کو خطبہ دیا کروں، تو اس عورت نے اسے منبر کے بنانے کا حکم دیا، اس بڑھئی نے غابہ کے جھاؤ سے منبر بنایا پھر اسے لے کر وہ عورت کے پاس آیا تو اس عورت نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ایک جگہ) رکھنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ منبر اسی جگہ رکھا گیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور تکبیر کہی پھر اسی پر رکوع بھی کیا، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا، پھر منبر پر واپس چلے گئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری پیروی کرو اور میری نماز کو جان سکو۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1080]
1080۔ اردو حاشیہ:
➊ خطبے وغیرہ کے لئے منبر کا استعمال مستحب ہے۔
➋ نماز کا معاملہ اس قدر اہم تھا اور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم میں ازحد مبالغے سے کام لیا، حتیٰ کہ منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ کر دکھائی۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بالعموم اور نماز میں بالخصوص فرض ہے۔
➍ طلباء کو اہم علمی مسائل کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ضروری امور کی معرفت بھی حاصل کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1080   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2569  
2569. حضرت سہل ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مہاجرین کی ایک خاتون کی طرف پیغام بھیجا، اس کا ایک بڑھئی غلام تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا: اپنے غلام سے کہو کہ وہ ہمارے لیے منبر کے تختے بنادے۔ اس عورت نے اپنے غلام کو حکم دیا، وہ جنگل کی طرف گیا اور جھاؤ کی لکڑی کاٹ لایا، پھر اس سے آپ کے لیے منبر تیار کیا۔ جب اس نے کام پورا کرلیا تو اس خاتون نے نبی کریم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ اس(غلام) نے منبر تیار کردیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس بھیج دو۔ لوگ منبر لے کر آئے تو نبی کریم ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور وہاں رکھ دیاجہاں تم اسے دیکھتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2569]
حدیث حاشیہ:
رسول کریم ﷺ نے بطور ہدیہ خود ایک انصاری عورت سے فرمائش کی کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے ایک منبر بنوادیں۔
چنانچہ تعمیل کی گئی اور غابہ کے جھاؤ کی لکڑیوں سے منبر تیار کرکے پیش کردیاگیا۔
جب یہ پہلے دن استعمال کیاگیا تو آنحضرت ﷺ نے اس کھجور کے تنے کا سہارا چھوڑدیا جس پر آپ ٹیک دے کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔
یہی تنا تھا جو آپ ﷺ کی جدائی کے غم میں سبک سبک کر (سسک سسک کر)
رونے لگا تھا۔
جب آپ ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تب وہ خاموش ہوا۔
مہاجر کا لفظ ابوغسان راوی کا وہم ہے۔
اور صحیح یہ ہے کہ یہ عورت انصاری تھی۔
اس سے لکڑی کا منبر سنت ہونا ثابت ہوا جو بیشتر اہل حدیث مساجد میں دیکھا جاسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2569   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2569  
2569. حضرت سہل ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مہاجرین کی ایک خاتون کی طرف پیغام بھیجا، اس کا ایک بڑھئی غلام تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا: اپنے غلام سے کہو کہ وہ ہمارے لیے منبر کے تختے بنادے۔ اس عورت نے اپنے غلام کو حکم دیا، وہ جنگل کی طرف گیا اور جھاؤ کی لکڑی کاٹ لایا، پھر اس سے آپ کے لیے منبر تیار کیا۔ جب اس نے کام پورا کرلیا تو اس خاتون نے نبی کریم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ اس(غلام) نے منبر تیار کردیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس بھیج دو۔ لوگ منبر لے کر آئے تو نبی کریم ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور وہاں رکھ دیاجہاں تم اسے دیکھتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2569]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے خود اس خاتون سے منبر تیار کرنے کی فرمائش کی، گویا آپ نے اس عورت سے ہدیہ طلب کیا تھا۔
مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد رسول اللہ ﷺ کھجور کے تنے کا سہارا لے کر خطبہ دیتے تھے۔
اس کے بعد باقاعدہ منبر کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے ایک خاتون کو پیغام بھیجا کہ اپنے بڑھئی ملازم سے ہمارے لیے منبر بنوا دیں، اس نے اپنے غلام کو یہ کام سونپا اور پھر منبر تیار کر کے مسجد میں رکھ دیا گیا۔
یہ مسجد نبوی کے پہلے منبر کی تاریخ ہے۔
(2)
معلوم ہوا کہ منبر کی تاریخ قدم ہے۔
منبر پر چڑھ کر خطیب خطبہ دیتے اور شعراء بڑی شان سے قصیدے پڑھتے تھے۔
اس روایت میں اس عورت کو مہاجر کہا گیا ہے جبکہ بعض روایات میں اس کے انصار میں سے ہونے کا ذکر ہے۔
ممکن ہے کہ سکونت کی وجہ سے مہاجرین میں شمار ہوتا ہو اگرچہ وہ نسبت کے اعتبار سے انصاریہ تھی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2569