صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
3. بَابُ مَنِ اسْتَوْهَبَ مِنْ أَصْحَابِهِ شَيْئًا:
باب: جو شخص اپنے دوستوں سے کوئی چیز بطور تحفہ مانگے۔
حدیث نمبر: 2570
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ يَوْمًا جَالِسًا مَعَ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلٍ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَازِلٌ أَمَامَنَا وَالْقَوْمُ مُحْرِمُونَ وَأَنَا غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَأَبْصَرُوا حِمَارًا وَحْشِيًّا وَأَنَا مَشْغُولٌ أَخْصِفُ نَعْلِي، فَلَمْ يُؤْذِنُونِي بِهِ، وَأَحَبُّوا لَوْ أَنِّي أَبْصَرْتُهُ وَالْتَفَتُّ، فَأَبْصَرْتُهُ، فَقُمْتُ إِلَى الْفَرَسِ فَأَسْرَجْتُهُ، ثُمَّ رَكِبْتُ وَنَسِيتُ السَّوْطَ وَالرُّمْحَ، فَقُلْتُ لَهُمْ: نَاوِلُونِي السَّوْطَ وَالرُّمْحَ، فَقَالُوا: لَا، وَاللَّهِ لَا نُعِينُكَ عَلَيْهِ بِشَيْءٍ، فَغَضِبْتُ، فَنَزَلْتُ، فَأَخَذْتُهُمَا، ثُمَّ رَكِبْتُ، فَشَدَدْتُ عَلَى الْحِمَارِ فَعَقَرْتُهُ، ثُمَّ جِئْتُ بِهِ وَقَدْ مَاتَ، فَوَقَعُوا فِيهِ يَأْكُلُونَهُ، ثُمَّ إِنَّهُمْ شَكُّوا فِي أَكْلِهِمْ إِيَّاهُ وَهُمْ حُرُمٌ، فَرُحْنَا وَخَبَأْتُ الْعَضُدَ مَعِي، فَأَدْرَكْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَنَاوَلْتُهُ الْعَضُدَ فَأَكَلَهَا حَتَّى نَفِدَهَا وَهُوَ مُحْرِمٌ". فَحَدَّثَنِي بِهِ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ابوحازم سے، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سلمی سے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ مکہ کے راستے میں ایک جگہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آگے قیام فرما تھے۔ (حجۃ الوداع کے موقع پر) اور لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میرا احرام نہیں تھا۔ میرے ساتھیوں نے ایک گورخر دیکھا۔ میں اس وقت اپنی جوتی گانٹھنے میں مشغول تھا۔ ان لوگوں نے مجھ کو کچھ خبر نہیں دی۔ لیکن ان کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح میں گورخر کو دیکھ لوں۔ چنانچہ میں نے جو نظر اٹھائی تو گورخر دکھائی دیا۔ میں فوراً گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر زین کس کر سوار ہو گیا، مگر اتفاق سے (جلدی میں) کوڑا اور نیزہ دونوں بھول گیا۔ اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا دیں۔ انہوں نے کہا ہرگز نہیں قسم اللہ کی، ہم تمہارے (شکار میں) کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے۔ (کیونکہ ہم سب لوگ حالت احرام میں ہیں) مجھے اس پر غصہ آیا اور میں نے خود ہی اتر کر دونوں چیزیں لے لیں۔ پھر سوار ہو کر گورخر پر حملہ کیا اور اس کو شکار کر لایا۔ وہ مر بھی چکا تھا۔ اب لوگوں نے کہا کہ اسے کھانا چاہئے۔ لیکن پھر احرام کی حالت میں اسے کھانے (کے جواز) پر شبہ ہوا۔ (لیکن بعض لوگوں نے شبہ نہیں کیا اور گوشت کھایا) پھر ہم آگے بڑھے اور میں نے اس گورخر کا ایک بازو چھپا رکھا تھا۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اس کے متعلق آپ سے سوال کیا، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے لیے شکار کے گوشت کھانے کا فتویٰ دیا) اور دریافت فرمایا کہ اس میں سے کچھ بچا ہوا گوشت تمہارے پاس موجود بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں! اور وہی بازو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ ختم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت احرام سے تھے (ابوحازم نے کہا کہ) مجھ سے یہی حدیث زید بن اسلم نے بیان کی، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2570  
2570. حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے کچھ اصحاب کے ساتھ مکہ کے راستے میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے آگے تشریف فرماتھے۔ میرے علاوہ سب لوگ حالت احرام میں تھے۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گورخر دیکھا جبکہ میں اس وقت اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا تھا۔ انھوں نے مجھے تو نہ بتایا لیکن ان کے دل میں خواہش ضرور تھی کہ میں اسے دیکھ لوں، چنانچہ میں نے ذرا سی توجہ کی تو اسے دیکھ لیا۔ میں گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہوگیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!اس سلسلے میں ہم تیری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں گھوڑے سے اترا اور دونوں چیزیں لیں پھر سوار ہوگیا اور گورخر پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔ پھر میں اسے ساتھ لے آیا جبکہ وہ دم توڑچکا تھا، چنانچہ سب لوگ اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2570]
حدیث حاشیہ:
ساتھیوں نے امداد سے انکار اس لیے کیا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور احرام کی حالت میں نہ شکار کرنا درست ہے نہ شکار میں مدد کرنا۔
آنحضرت ﷺ نے اس گوشت میں تحفہ کی خود خواہش فرمائی۔
اسی سے مقصد باب حاصل ہوا۔
ابوقتادہ سلمی ؒ نے تیر بسم اللہ پڑھ کر چلایا ہوگا۔
پس وہ شکار حلال ہوا۔
دوست احباب میں تحفے تحائف لینے دینے بلکہ بعض دفعہ باہمی طور پر خود فرمائش کردینے کا عام دستور ہے، اسی کا جواز یہاں سے ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2570   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2570  
2570. حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے کچھ اصحاب کے ساتھ مکہ کے راستے میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے آگے تشریف فرماتھے۔ میرے علاوہ سب لوگ حالت احرام میں تھے۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گورخر دیکھا جبکہ میں اس وقت اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا تھا۔ انھوں نے مجھے تو نہ بتایا لیکن ان کے دل میں خواہش ضرور تھی کہ میں اسے دیکھ لوں، چنانچہ میں نے ذرا سی توجہ کی تو اسے دیکھ لیا۔ میں گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہوگیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!اس سلسلے میں ہم تیری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں گھوڑے سے اترا اور دونوں چیزیں لیں پھر سوار ہوگیا اور گورخر پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔ پھر میں اسے ساتھ لے آیا جبکہ وہ دم توڑچکا تھا، چنانچہ سب لوگ اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2570]
حدیث حاشیہ:
(1)
سیدنا قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے کوڑا اور نیزہ پکڑانے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور احرام کی حالت میں نہ شکار کرنا درست ہے اور نہ شکار کے لیے کسی کی مدد کرنا ہی جائز ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے خود گورخر کے گوشت کی فرمائش کی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؒ سے بکری کا تحفہ لینے کی خواہش کی تھی۔
دراصل احادیث میں سوال کرنے کی سخت وعید اور مذمت بیان کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ساتھیوں کے بے تکلفانہ ماحول میں کسی چیز کی فرمائش کرنا اور بات ہے، یہ اس وعید کی زد میں نہیں آتا جو احادیث میں سوال کے متعلق آئی ہے۔
دوست احباب میں تحائف لینے دینے اور بعض اوقات خود فرمائش کرنے کا ہمارے ہاں بھی عام دستور ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2570