سنن نسائي
كتاب الضحايا -- کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
34. بَابُ : مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
باب: غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 4427
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ ابْنِ حَيَّانَ يَعْنِي مَنْصُورًا، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَلِيًّا، هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسِرُّ إِلَيْكَ بِشَيْءٍ دُونَ النَّاسِ؟ , فَغَضِبَ عَلِيٌّ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَقَالَ: مَا كَانَ يُسِرُّ إِلَيَّ شَيْئًا دُونَ النَّاسِ، غَيْرَ أَنَّهُ حَدَّثَنِي، بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَأَنَا وَهُوَ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ".
عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو چھوڑ کر آپ کو کوئی راز کی بات بتاتے تھے؟ اس پر علی رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ ان کا چہرہ لال پیلا ہو گیا اور کہا: آپ لوگوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی بات راز کی نہیں بتاتے تھے، سوائے اس کے کہ آپ نے مجھے چار باتیں بتائیں، میں اور آپ ایک گھر میں تھے، آپ نے فرمایا: اللہ اس پر لعنت کرے جس نے اپنے والد (ماں یا باپ) پر لعنت کی، اللہ اس پر بھی لعنت کرے جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا، اللہ اس پر لعنت کرے جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی ۱؎، اور اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے زمین کی حد کے نشانات بدل ڈالے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحي 8 (1978)، (تحفة الأشراف: 10152) مسند احمد (1/108، 118، 152) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی تائید و حمایت کی اور بدعت سے خوش ہوا۔ ۲؎: مثلاً دو آدمیوں کی زمین کو الگ کرنے والے نشانات بدلے، اور اس سے مقصد دوسری کی زمین میں سے کچھ ہتھیا لینا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4427  
´غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والوں کا بیان۔`
عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو چھوڑ کر آپ کو کوئی راز کی بات بتاتے تھے؟ اس پر علی رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ ان کا چہرہ لال پیلا ہو گیا اور کہا: آپ لوگوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی بات راز کی نہیں بتاتے تھے، سوائے اس کے کہ آپ نے مجھے چار باتیں بتائیں، میں اور آپ ایک گھر میں تھے، آپ نے فرمایا: اللہ اس پر لعنت کرے جس نے اپنے والد (ماں یا باپ) پر لعنت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4427]
اردو حاشہ:
(1) مؤلف رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد ذبح لغیر اللہ کی مذمت ہے، لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی (پیر، پیغمبر، نبی، قطب، ابدال، نیک صالح اور بزرگ وغیرہ) کے لیے، ان کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کی خاطر جانور ذبح کرتا ہے، وہ ملعون ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ لعنتی شخص، اللہ عز و جل کی رحمت سے دور اور محروم ہو جاتا ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اعمال کبیرہ گناہ ہیں کیونکہ لعنت، مرتکب کبیرہ پر ہی کی جاتی ہے، مرتکب صغیر پر نہیں، نیز ان کے مرتکب کو لعنتی بھی قرار نہیں دیا گیا۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے شیعہ، روافض اور امامیہ وغیرہ کے عقیدے کی کھلی تردید ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خاص کوئی وصیت فرمائی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مبتدعین جن دیگر من گھڑت باتوں اور خرافات پر اپنے عقائد و افکار کی بنیاد رکھتے ہیں اس کی عمارت بھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مذکورہ فرمان کی وجہ سے دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے۔ ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ عَلٰی ذٰلِك۔ بعض بے دین لوگوں نے عجیب عجیب باتیں مشہور کر رکھی تھیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اصل وحی کی تعلیم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دی ہے جو کہ اس قرآن سے بہت زیادہ ہے۔ یہ بات خالص احمقانہ ہے، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غصہ آ گیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ پھر آپ نے بتایا کہ خصوصی تعلیم تو کوئی نہیں دی، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی فرمان کے موقع پر میں اتفاقاً آپ کے پاس اکیلا تھا۔ مگر وہ فرمان بھی سب امت کے لیے ہے نہ کہ صرف میرے لیے۔
(4) غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے، اسی طرح جو شخص غیر اللہ کی رضا کی خاطر جانور ذبح کرتا ہے، خواہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لے، وہ بھی ذبح لغیر اللہ ہی ہے اور ایسا شخص ملعون ہے۔
(5) زمین کی علامات ان علامات سے مراد یا تو صحرائی راستوں کی علامات ہیں جن کی مدد سے مسافر بھٹکنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ ان علامات کو مٹانے سے ان کی موت کا خطرہ ہے، لہٰذا یہ سخت گناہ ہے۔ یا وہ علامات مراد ہیں جن کے ساتھ لوگوں کی ملکیت کی حد بندی ہوتی ہے۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4427