سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : الْحَثِّ عَلَى الْكَسْبِ
باب: روزی کمانے کی ترغیب۔
حدیث نمبر: 4454
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو قُدَامَةَ السَّرْخَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ، وَإِنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ مِنْ كَسْبِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی (محنت کی) کمائی سے کھائے، اور آدمی کی اولاد اس کی کمائی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 79 (3528، 3529)، سنن الترمذی/الأحکام 22 (1258)، سنن ابن ماجہ/التجارات 64 (229)، (تحفة الأشراف: 17992)، مسند احمد (6/31، 41، 127، 162، 193، 201، 202، 220)، سنن الدارمی/البیوع 6 (2579) (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کی راویہ ”عمة عمارة“ مجہولہ ہیں)»

وضاحت: ۱؎: سب سے پاکیزہ کمائی کی بابت علماء کے تین اقوال ہیں: ۱- تجارت ۲- ہاتھ کی کمائی اور ایسا پیشہ جو کمتر درجے کا نہ ہو ۳- زراعت (کھیتی باڑی)، ان میں سب سے بہتر کون ہے اس کا دارومدار حالات و ظروف پر ہے۔ راجح یہ ہے کہ سب سے بہتر اور پاکیزہ رزق وہ ہے جو حدیث رسول «جعل رزقی تحت ظل رمحی» کے مطابق بطور غنیمت حاصل ہو۔ اس لیے کہ یہ دین کے غلبہ کے لیے حاصل ہونے والی جدوجہد اور قتال میں حاصل مال ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4454  
´روزی کمانے کی ترغیب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی (محنت کی) کمائی سے کھائے، اور آدمی کی اولاد اس کی کمائی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4454]
اردو حاشہ:
(1) محنت سے کما کر کھانے کو رسول اللہ ﷺ نے بہترین اور پاکیزہ کمائی قرار دیا ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کی کمائی میں والد کو، اولاد کی اجازت کے بغیر بھی، تصرف کرنے کا حق اور اختیار ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اولاد صاحب استطاعت ہو تو ان پر والدین کا نان و نفقہ واجب ہے۔ تمام فقہاء نے اولاد پر والدین کا خرچہ واجب اور ضروری قرار دیا ہے۔
(3) اولاد بھی آدمی کی اپنی کمائی ہے گویا انسان کو یا تو اپنی محنت سے کما کر کھانا چاہیے یا اپنی اولاد کی کمائی سے کیونکہ وہ بھی غیر نہیں۔ اور اپنی اولاد کا مال کھانا عار بھی نہیں جبکہ اور کسی سے لے کر کھانا عار ہے، خواہ وہ سگا بھائی ہی ہو۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ کوئی شخص مفت خور یا منگتا نہیں ہونا چاہیے الا یہ کہ کوئی معذور ہو۔ کمائی کے قابل نہ ہو ورنہ کسی پر بوجھ بننا صدقہ لینے کے مترادف ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4454   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2137  
´روزی کمانے کی ترغیب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا سب سے عمدہ کھانا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی کا ہو، اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2137]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلام رہبانیت کا دین نہیں اور نہ وہ ترک دنیا کی دعوت دیتا ہے بلکہ دنیا میں اس طریقے سے رہنا سکھاتا ہے جس میں ایثار، خیر خواہی اور تعاون کو پیش نظر رکھا جائے۔
دنیا میں امن و مان اس طرح پیدا ہوا سکتا ہے۔

(2)
  محنت سے حاصل ہونے والی کمائی حلال کمائی ہے بشرطیکہ اس میں شرعی احکام کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔
یہ محنت جسمانی بھی ہو سکتی ہے، کوئی فنی مہارت یا دستکاری بھی ہو سکتی ہے، ذہنی اور دماغی بھی ہو سکتی ہے۔

(3)
  انسان اپنے پچوں کی پرورش کرتا ہے اور ان پر خرچ کرتا ہے لہٰذا اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرے۔

(4)
والدین اپنی اولاد سے حسب ضرورت مال لے سکتے ہیں تاہم انہیں چاہیے کہ اولاد کی جائز ضرویات کو نظر انداز نہ کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2137   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1358  
´باپ بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1358]
اردو حاشہ: 1؎:
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی ایک حدیث مروی ہے،
'أَنْتَ وَ مَالُكَ لأَبِيْكَ' (یعنی تم اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) (سنن ابی داود رقم: 3530/صحیح) اس میں بھی عموم ہے،
ضرورت کی قید نہیں ہے،
اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں سنن أبی داود میں (برقم: 3529) جو 'إذا احتجتم' (جب تم ضرورت مند ہو) کی 'زیادتی' ہے وہ بقول ابوداود 'منکر' ہے،
لیکن لڑکے کی وفات پر (پوتا کی موجودگی میں) باپ کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے،
اس سے حدیث کی تخصیص ہوجاتی ہے۔
یعنی بیٹے کا کل مال باپ کی ملکیت نہیں،
صرف بقدر ضرورت ہی لے سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1358