سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
23. بَابُ : بَيْعِ الْمُلاَمَسَةِ
باب: بیع ملامسہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4513
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , وَأَبِي الزِّنَادِ , عَنْ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْمُلَامَسَةِ , وَالْمُنَابَذَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 63 (2146)، (تحفة الأشراف: 13827)، موطا امام مالک/البیوع 35 (76)، مسند احمد (2/279، 319، 419، 464، 476، 480، 491، 496، 521، 529) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: زمانہ جاہلیت میں منابذہ، ملامسہ، یا کنکری پھینک کر خرید و فروخت کا عام رواج تھا، ان سارے معاملات میں دھوکا، اور مال وقیمت کی تحدید و تعیین نہیں ہوتی تھی، اس لیے یہ معاملات جھگڑے کا سبب ہوتے ہیں یا کسی فریق کے سخت گھاٹے میں پڑ جانے سے اسے سخت تکلیف ہوتی ہے، اس لیے ان سے شریعت اسلامیہ نے منع کر دیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4513  
´بیع ملامسہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4513]
اردو حاشہ:
(1) بیع ملامسہ حرام ہے کیونکہ اس میں نرا دھوکا ہی دھوکا ہے، جبکہ شرعاً اور اخلاقاً کسی کو دھوکا دینا قطعی طور پر ناجائز ہے۔
(2) حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیع منابذہ بھی حرام ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ لطیف سا اشارہ بھی نکلتا ہے کہ ایام جاہلیت میں لوگوں کے مابین جو ناجائز معاملات رواج پذیر تھے اور ان کی وجہ سے ان میں باہمی کش مکش اور قطع تعلقی کی فضا بنی رہتی تھی، شارع علیہ السلام اس بات کے بے حد حریص تھے کہ اپنی امت کو ایسے تمام معاملات سے دور کر دیں جو ان کے باہمی تعلقات کے بگاڑ کا سبب بن سکتے تھے اور جس کی وجہ سے ان کے مابین منافرت اور بغض و عناد پیدا ہو سکتے تھے۔ بیع ملامسہ و منابذہ اور دیگر ممنوع بیوع بھی اسی قبیل سے ہیں۔ لیکن باوجود ایں ہمہ، روپے پیسے اور مال و دولت کی حرص و ہوس نے لوگوں کی اکثریت کو اندھا کر دیا ہے، دولت اکٹھی کرنے ہی کو اصل مقصد حیات سمجھ لیا گیا ہے اور اس میں حلال و حرام کی بھی تمیز نہیں کی جاتی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4513   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1310  
´بیع ملامسہ اور بیع منابذہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع منابذہ اور بیع ملامسہ سے منع فرمایا۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1310]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کیونکہ اس میں دھوکہ ہے،
مبیع (سودا) مجہول ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1310