صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
17. بَابُ مَنْ لَمْ يَقْبَلِ الْهَدِيَّةَ لِعِلَّةٍ:
باب: جس نے کسی عذر سے ہدیہ قبول نہیں کیا۔
حدیث نمبر: 2597
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ الْأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْأُتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، قَالَ: فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ، فَيَنْظُرَ يُهْدَى لَهُ أَمْ لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ بِيَدِهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبْطَيْهِ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلَاثًا".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، زہری سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے کہ قبیلہ ازد کے ایک صحابی کو جنہیں ابن اتبیہ کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو کہا کہ یہ تم لوگوں کا ہے (یعنی بیت المال کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا۔ دیکھتا وہاں بھی انہیں ہدیہ ملتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس (مال زکوٰۃ) میں سے اگر کوئی شخص کچھ بھی (ناجائز) لے لے گا تو قیامت کے دن اسے وہ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہے تو وہ اپنی آواز نکالتا ہوا آئے گا، گائے ہے تو وہ اپنی اور اگر بکری ہے تو وہ اپنی آواز نکالتی ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لی (اور فرمایا) اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ تین مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا)۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2946  
´ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2946]
فوائد ومسائل:
حکومت کا منصب دار ہوتے ہوئے متعینہ حق سے زیادہ لینا خواہ لوگ اپنی مرضی سے کیوں نہ دیں۔
اور اسے ہدیہ بتایئں تو وہ بیت المال کا حق ہے۔
اور قومی امانت ہے۔
اسے اپنے ذاتی تصرف میں لانا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2597  
2597. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ ازد کے ایک شخص کو، جسےابن الاتبیہ کہا جاتا تھا، صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا۔ جب وہ لوٹ کر آیا تو کہنے لگا: یہ تمہارا (سرکاری مال) ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: وہ اپنے ابا یا اماں کے گھربیٹھا رہتا، پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتاہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص کوئی مال رشوت کے طور پر لے وہ قیامت کے دن اس کو اپنی گردن پر اٹھا کرآئے گا۔ اگر اونٹ ہوگا توبلبلا رہاہوگا، گائے ہوگی تو ڈکار رہی ہوگی اور بکری ہوگی تو ممیار ہی ہوگی۔ پھرآپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ ہم نے بغلوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا اے اللہ! میں نے تیرا حکم پہنچادیا۔ یہ تین بار فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2597]
حدیث حاشیہ:
اس سے ناجائز ہدیہ کی مذمت ثابت ہوئی۔
حاکم عامل جو لوگوں سے ڈالیاں وصول کرتے ہیں وہ بھی رشوت میں داخل ہیں۔
ایسے ناجائز مال حاصل کرنے والوں کو قیامت کے دن ایسے عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2597   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2597  
2597. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ ازد کے ایک شخص کو، جسےابن الاتبیہ کہا جاتا تھا، صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا۔ جب وہ لوٹ کر آیا تو کہنے لگا: یہ تمہارا (سرکاری مال) ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: وہ اپنے ابا یا اماں کے گھربیٹھا رہتا، پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتاہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص کوئی مال رشوت کے طور پر لے وہ قیامت کے دن اس کو اپنی گردن پر اٹھا کرآئے گا۔ اگر اونٹ ہوگا توبلبلا رہاہوگا، گائے ہوگی تو ڈکار رہی ہوگی اور بکری ہوگی تو ممیار ہی ہوگی۔ پھرآپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ ہم نے بغلوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا اے اللہ! میں نے تیرا حکم پہنچادیا۔ یہ تین بار فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2597]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو زکاۃ کی وصولی کے لیے تحصیلدار مقرر کیا۔
لوگوں نے اس کی خوشنودی کے لیے زکاۃ دینے کے علاوہ تحائف بھی پیش کیے۔
یہ ہدایا سرکاری حیثیت کے باعث دیے گئے۔
اگر وہ سرکاری ڈیوٹی پر نہ ہوتا تو لوگ یہ تحائف اس کے گھر نہ پہنچاتے، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی سنگینی ان الفاظ میں بیان فرمائی:
رشوت کے طور پر قبول کیا جانے والا مال رشوت لینے والے کی گردن پر سوار ہو گا۔
آج کل کے سرکاری اہل کار غور و فکر کریں کہ ان کی گردنوں پر کن کن چیزوں کو سوار کیا جائے گا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری اہل کار غوروفکر کریں کہ ان کی گردنوں پر کن کن چیزوں کو سوار کیا جائے گا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کسی سے تحفہ یا ہدیہ لینا شرعاً جائز نہیں کیونکہ وہ اپنی کارکردگی کے عوض حکومت سے وظیفہ لیتا ہے، اسی طرح مقروض سے نذرانہ یا تحفہ لینا بھی ناجائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2597