سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
77. بَابُ : الْبَيْعِ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ
باب: بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔
حدیث نمبر: 4641
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَحْيَى , عَنْ زَكَرِيَّا , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَعْيَا جَمَلِي فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَيِّبَهُ , فَلَحِقَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَهُ , فَضَرَبَهُ فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ , فَقَالَ:" بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ" , قُلْتُ: لَا، قَالَ:" بِعْنِيهِ" , فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ , وَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ , فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَابْتَغَيْتُ ثَمَنَهُ , ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ , فَقَالَ:" أَتُرَانِي إِنَّمَا مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اسے تھپتھپایا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: اسے ایک اوقیہ (۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو، میں نے کہا: نہیں (بلکہ وہ آپ ہی کا ہے)، آپ نے فرمایا: اسے مجھ سے بیچ دو تو میں نے ایک اوقیہ میں اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط لگائی ۱؎، جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر آپ کے پاس آیا اور اس کی قیمت چاہی، پھر میں لوٹا تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کم قیمت لگائی تاکہ میں تمہارا اونٹ لے سکوں، لو اپنا اونٹ بھی لے لو اور اپنے درہم بھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 34 (2097)، الاستقراض 1 (2385)، 18 (2406)، المظالم 26 (2470)، الشروط 4 (2718)، الجہاد 49 (2861)، 113 (2967)، صحیح مسلم/البیوع 42 (المساقاة 21) (715)، الرضاع 16 (715)، سنن ابی داود/البیوع 71 (3505)، سنن الترمذی/البیوع 30 (1253)، (تحفة الأشراف: 2341)، مسند احمد (3/299) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ جائز شرط تھی اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر معاملہ کر لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4641  
´بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اسے تھپتھپایا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: اسے ایک اوقیہ (۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو، میں نے کہا: نہیں (بلکہ وہ آپ ہی کا ہے)، آپ نے فرمایا: اسے مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4641]
اردو حاشہ:
مندرجہ ذیل فوائد و مسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اہم بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ اس باب کے تحت مذکور حدیث حدیثِ جابر کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بہت سے طرق ہیں، لہٰذا ان طرق کے لحاظ سے الفاظ کی کمی بیشی اور تفصیل واجمال سب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فوائد و مسائل تحریر کیے گئے ہیں۔
(1) سودا کرتے ہوئے اگر ایسی شرط لگائی جائے جو مقصودِ عقد کے منافی نہ ہو تو اس صورت میں بیع اور شرط جائز ہو گی، خواہ اس شرط سے خرید نے یا بیچنے والے کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔
(2) جس شخص کے پاس کوئی چیز ہو اس سے اس چیز کا سودا کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث سفر میں سودا کرنے کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خرید و فروخت کے وقت، خریدار چیز کی قیمت بتا سکتا ہے کہ میں تمھاری چیز اتنی رقم میں خریدوں گا، یا تم مجھے اپنی فلاں چیز اتنی رقم کے عوض دے دو، اسی طرح سودا پکا ہونے سے پہلے، بیع (سودے) کی قیمت کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ نا جائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم کرانے کے لیے اپنا اثر ور سوخ اور منصب و اختیار استعمال کیا جائے اور مالک کو نقصان پہنچایا جائے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحت بیع (سودا درست ہونے) کے لیے مبیع قبضے میں لینا شرط نہیں جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے سودا کرکے مبیع، یعنی اونٹ اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ وہ مدینے تک سواری کے لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ہی رہا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اس خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کیا جائے ایسا کرنا شرعاً نا جائز اور حرام ہے۔
(4) عمر اور مرتبے میں بڑی شخصیت کو جائز معاملے میں نہیں کہا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے جواب میں پہلے کہا: یہ بے ادبی یا گستاخی نہیں۔
(5) یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نیک اور صالح عمل کا اظہار کرنا جبکہ وہ افراط و تفریط اور فخر و ریا، نیز اپنی بڑائی بیان کرنے کی غرض سے نہ ہو شرعاً مباح اور جائز ہے۔ اگر ایسا کرنے کا مقصد اپنی نیکی اور پارسائی کا اظہار ہو یا بطور فخر ایسا کیا جائے تو یہ نا جائز اور انتہائی قبیح عمل ہے۔ اس سے احتراز کرنا ضروری اور واجب ہے۔
(6) اس حدیث مبارکہ سے، بوقت ضرورت جانوروں کو مارنے کا جواز نکلتا ہے۔ اگرچہ جانور غیر مکلف ہیں، تا ہم ان کی اصلاح کے لیے انھین سزا دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود، اپنے دستِ مبارکہ سے اونٹ کو مارا تھا۔ یہ یاد رہے کہ یہ طریقہ اس وقت استعمال کیا جائے جب جانور تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے تنگ کر رہا ہو۔
(7) حاکم وقت، یا دیگر ذمہ داران کو اپنے ماتحت اشخاص کے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ان کی مالی معاونت کرنی چاہیے، نیز ہر وقت احساس کے جذبے سے معمور رہنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت جابر کے ساتھ۔
(8) قرض کی ادائیگی میں کسی دوسرے شخص کو وکیل بنانا درست ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ جابر کو ادائیگی کر دو۔ ثمن کا وزن کرنا مشتری کے ذمے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادھار چیز خریدنا شرعاً درست اور جائز ہے۔
(9) ضرورت کے وقت چوپائے مسجد کے صحن میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سازو سامان بھی مسجد کے صحن میں رکھا جا سکتا ہے۔
(10) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا عطیہ قبول کرنے سے پہلے، اس پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اونٹ کی بابت کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے لیکن آپ نے فرمایا: لا، بَلْ بعْنِيهِ نہیں (میں بلا قیمت قبول نہیں کرتا) بلکہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔
(11) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے تبرکات کی حفاظت کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: [لَمْ يُفارِقنِي فجعلْتُه في كِيسٍ]  رسول اللہ ﷺ کی جانب سے زیادہ دیا ہوا قیراط مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوا، میں نے اسے ایک تھیلی میں ڈال دیا۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہے کہ تبرکات مستند ذریعے سے ثابت ہوں، خود ساختہ نہ ہوں، نیز تبرکات کے ناقلین بھی ثقہ ہوں، غیر معتبر لوگوں کے قصے کہانیوں پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
(12) حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت بھی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی فرماں برداری کرتے ہوئے، ذاتی ضرورت کے باوجود اونٹ آپ کو بیچ دیا۔
(13) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے معجزے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ یاد رہے معجزے میں قدرت الہٰی کار فرما ہوتی ہے۔ اس میں انسانی اختیار نہیں ہوتا۔
(14) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے حسن اخلاق کا اثبات بھی بھی ہوتا ہے۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ صرف یہ کہ طے شدہ قیمت سے قیراط زیادہ دیا بلکہ وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ ’
(15) شرط لگا لی گویا ایسی شرط بیع کے پکا ہونے کے منافی نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ احناف اس شرط کو مقتضائے عقد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شرط نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کے لیے رعایت تھی۔ کسی راوی نے غلطی سے شرط کہہ دیا لیکن احناف کی یہ توجیہ محدثین کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اکثر راوی شرط بیان کرتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4641   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048